سر کے بالوں کا اکرام

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


کنگھا کرنے اور خضاب لگانے سے متعلق شرعی احکام ’’جس کے بال ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کا اکرام کرے یعنی اچھی طرح رکھے‘‘(ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جس کے بال ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کا اکرام کرے یعنی اچھی طرح رکھے‘‘ (رواہ سنن ابوداؤد شریف)

حضور اقدس ﷺکے سر مبارک کے بالوں کی لمبائی کانوں کے درمیان تک اور دوسری روایات میں کانوں اور تیسری روایت کے مطابق کانوں کی لو تک تھی اور چند مرتبہ بال منڈانا بھی ثابت ہے۔ان سب روایتوں کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں کہ ان روایات میں کوئی تعارض نہیں اس لیے کہ بال بڑھنے والی چیز ہے۔ بال ترشوانے سے پہلے لمبے ہوتے تھے اور ترشوانے کے بعد چھوٹے ہوتے تھے۔ حضرت تھانویؒ کے خلیفہ مجاز حضرت ڈاکٹر عبدالحیؒ لکھتے ہیں کہ ’’مواہب لدنیہ اور اس کے مطابق مجمع البحار میں مذکور ہے کہ جب بال ترشوانے میں طویل وقفہ ہو جاتا تو بال لمبے ہو جاتے اور جب ترشواتے تو چھوٹے ہو جاتے۔ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بالوں کو ترشواتے تھے منڈاتے نہ تھے لیکن بال منڈوانے کے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ آپ حج و عمرہ کے دو موقعوں کے سوا بال نہیں منڈواتے تھے (مدارج النبوۃ) (اسوۂ رسول اکرم ﷺبعنوان، سر کے موئے مبارک) بالوں میں کنگھا کرنا سنت یا مستحب ہے۔ حضور ﷺ نے کنگھا کر نے کی ترغیب بھی فرمائی اور خود بھی اپنے بالوں میں کنگھا کیا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺکے بالوں میں کنگھا کرتی تھی۔(شمائل ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اپنے وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں، جوتا پہننے میں دائیں طرف کو مقدم رکھتے تھے (شمائل ترمذی) یعنی پہلے دائیں جانب کنگھا کرتے تھے پھر بائیں جانب۔

آج کل بعض لوگ اس بات کو بہت پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہر روز بالوں میں کنگھا کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے؟اس بارے میں وضاحت یہ ہے کہ یہ حضرات جس روایت کو دلیل بناتے ہیں وہ ابوداؤد اور شمائل ترمذی میں موجود ہے۔ اصل عبارت یہ ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس کا ترجمہ یہ فرمایا کہ ’’حضور اقدسﷺکنگھی کرنے کو منع فرماتے تھے مگر گاہے گاہے (کبھی کبھی)‘‘ (ابوداؤد، شمائل ترمذی)۔

اس کے بعد شیخ الحدیث ؒ نے لکھا کہ ’’قاضی عیاضؓ فرماتے ہیں کہ گاہے گاہے سے مراد تیسرا دن ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ ممانعت جب ہے جب کہ کوئی ضرورت اس کی مقتضی نہ ہو ورنہ کچھ مضائقہ نہیں‘‘ (خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی صفحہ 28)

حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحبؒ مدارج النبوۃ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضور اکرم ﷺ کثرت سے کنگھی کیا کرتے تھے۔ آپﷺ جس کسی کے پراگندہ اور بکھرے ہوئے بال دیکھتے تو کراہت سے فرماتے کہ تم میں سے کسی کو وہ نظر آیا۔ اشارہ شیطان کی طرف ہے۔ اس طرح آپﷺ بہت زیادہ ہنسنے، سنوارنے اور لمبے بالوں والے سے بھی کراہت فرماتے۔ اعتدال اور میانہ روی آپﷺ کو بہت پسند تھی‘‘(اسوۂ رسول اکرم ﷺ بعنوان سر کے موئے مبارک)۔

آنحضرتﷺ سوتے وقت مسواک کرتے، وضو کرتے اور سر کے بالوں اور داڑھی مبارک میںکنگھا کرتے (اسوۂ رسول اکرمﷺ)۔آنحضرت ﷺ سفر میں ہوتے یا حضر میں، ہمیشہ سوتے وقت آپﷺ کے سرہانے سات چیزیں رکھی رہتیں، تیل کی شیشی، کنگھا، سرمہ دانی، قینچی، مسواک، آئینہ اور لکڑی کی ایک چھوٹی سی سیخ جو سرکھجانے کے کام آتی تھی۔(زاد المعاد)۔

 آپ ﷺ پہلے داڑھی مبارک اور سر میں تیل لگاتے اور پھر کنگھا کرتے (اسوۂ رسول اکرم ﷺ) ۔

 ابن جریج  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکا ہاتھی دانت کا کنگھا تھا جس سے آپﷺ کنگھا کرتے تھے(ابن سعد)۔ رسول اکرمﷺپانی لگا کر بھی داڑھی مبارک میں کنگھا کیا کرتے تھے۔(اسوۂ رسول اکرم ﷺ)

آپﷺ جب آئینہ دیکھتے تو یہ الفاظ زبان مبارک پر ہوتے: ترجمہ: ’’اے اللہ جس طرح تو نے میری تخلیق کو بہتر بنایا ایسے ہی میرے خلق یعنی عادت کو بہتر بنا اور میرے رزق میں وسعت دے‘‘(نشر الطیب، شمائل ترمذی)۔

آپ ﷺجب سر میں تیل لگانے کا ارادہ فرماتے تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں تیل رکھتے اور پہلے ابروئوں میں تیل لگاتے پھر آنکھوں پر پھر سر پر تیل لگاتے(زاد المعاد)۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر مبارک میں اکثر تیل کا استعمال فرماتے تھے اور اپنی داڑھی میں اکثر کنگھی کیا کرتے تھے اور اپنے سر مبارک پر ایک کپڑا ڈال لیا کرتے تھے جو تیل کے کثرت استعمال سے ایسا ہوتا تھا جیسے تیل والے کا کپڑا(شمائل ترمذی، زادالمعاد)۔اس حدیث کی تشریح میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب لکھتے ہیں کہ ’’تیل سے چونکہ کپڑے خراب ہو جاتے ہیں جو حضور انور ﷺکی نظافت کے خلاف ہے، اس لیے اس کی حفاظت کیلئے حضور ﷺ ایک کپڑا سر پر ڈال لیتے تھے کہ عمامہ وغیرہ خراب نہ ہو (خصائل نبوی ،صفحہ 27)۔

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انسؓسے پوچھا کہ کیا حضورﷺ خضاب کرتے تھے، انہوں نے فرمایا حضور ﷺکے بالوں کی سفیدی اس مقدار ہی کو نہ پہنچی تھی کہ خضاب کی نوبت آتی۔ سفیدی حضور اکرم ﷺکی صرف دونوں کنپٹیوں میں تھوڑی سی تھی البتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ حنا اور کتم کا خضاب فرمایا کرتے تھے (شمائل ترمذی)۔ 

حضرت انس ؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ میں نے حضور ﷺکے بالوں کو خضاب کیا ہوا دیکھا(شمائل ترمذی)۔ محدثین لکھتے ہیں کہ یہ دونوں روایتیں صحیح مان لی جائیں تو مختلف اوقات پر محمول ہو سکتی ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ لکھتے ہیں کہ:

’’ان ہی روایات مختلفہ کی بنا پر علماء میں بھی اختلاف ہوا ہے کہ حضور ﷺ نے خضاب فرمایا یا نہیں۔ اکثر حضرات کے نزدیک امام ترمذیؓ کا میلان خضاب نہ کرنے کی طرف ہے، حنفیہ بھی اسی طرف مائل ہیں چنانچہ درمختار میں اس کی تصریح موجود ہے کہ حضور ﷺ کا خضاب نہ کرنا زیادہ صحیح ہے اور علامہ شامیؓ نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ حضور ﷺکی داڑھی اور سر مبارک میں بخاری وغیرہ کی روایت کے موافق صرف سترہ بال سفید تھے۔

بیجوری شافعی شارح شمائل ترمذی اس کے قائل ہوئے کہ آپﷺ نے کبھی کبھی خضاب فرمایا اکثر نہیں کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ علماء حنفیہ کے نزدیک خضاب مستحب ہے لیکن مشہور قول کے موافق سیاہ خضاب مکروہ ہے اور علماء شافعیہ کے نزدیک خضاب سنت ہے مگر سیاہ خضاب حرام ہے‘‘ (خصائل نبوی ﷺ،32)۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ حنا اور کتم سے خضاب فرمایا کرتے تھے اس کے بارے میں حضرت مولانا زکریا صاحب لکھتے ہیں کہ : کتم ایک گھاس کا نام ہے جس سے خضاب کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف کتم کا خضاب سیاہ ہوتا ہے اور مہندی کے ساتھ ملا کر سرخ ہوتا ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف کتم کا خضاب سبز (سبزی مائل) ہوتا ہے اور مہندی ملا کر مائل بسیاہی ہو جاتا ہے۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ غلبہ کا اعتبار ہوتا ہے اگر غلبہ کتم کا ہوتا ہے تو خضاب سیاہ ہو جاتا ہے اور اگر غلبہ مہندی کا ہوتا ہے تو سرخ۔ الغرض خضاب دونوں سے جائز ہے مگر مکمل سیاہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ سیاہ خضاب کی ممانعت احادیث سے ثابت ہے۔(خصائل نبوی ﷺ، صفحہ 29)

اس لیے آج کل بازار میں جو خضاب ملتے ہیں ان میں بھی غور کر لیا جائے کہ جو بالوں کو بالکل سیاہ کر دیتا ہے اس سے بچا جائے اور جو نسواری اور برائون کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے