چڑیا گھر کی سیر !

تحریر : محمد نو رالحسن( بہاول نگر)


سعید چھٹی جماعت کا ایک ذہین اور سمجھدار طالب علم تھا، وہ ہمیشہ اپنی جماعت میں اوّل آتا۔ دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی سیر و تفریح کا بہت شوقین تھا۔سعید اور اس کے بہن بھائی ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور اپنے تایاکے پاس رہنے آتے اور وہاں کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے۔

اس نے ابھی تک چڑیا گھر نہیں دیکھا تھا اور اسے چڑیا گھر کی سیر کا بہت شوق تھا۔ اس نے اپنے سکول کے ساتھیوں سے سن رکھا تھا کہ چڑیا گھر میں طرح طرح کے جانور ہوتے ہیں۔

اس بار سعید نے گرمیوں کی چھٹیوں میں چڑیا گھر جانے کا فیصلہ کیا۔گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو سعید اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تایا کے گھر آگیا۔ اس نے آتے ہی تایا سے چڑیا گھر جانے کی فرمائش کی۔تایا نے اس سے اگلے روز چڑیا گھرلے کر جانے کا وعدہ کر لیا۔سعید نے رات بہت مشکل سے گزاری اور اس کو انتظار تھا کہ کسی طرح صبح ہو اور وہ چڑیا گھر کی سیر کیلئے جائے۔

صبح ہوئی تواس کے تایا نے سب بچوں کو اکٹھا کیا اور چڑیا گھر کیلئے نکل گئے۔چڑیا گھر پہنچتے ہی گیٹ کے سامنے ٹکٹ گھر نظر آیا۔ جہاں بہت رش تھا۔تایا ابو نے ہم سب بچوں کوایک جگہ پر کھڑا کیااور خود ٹکٹیں لینے چلے گئے۔

ٹکٹ خریدنے کے بعد ہم سب چڑیا گھر میں داخل ہوئے۔ہماری طرح وہاں اور بھی بہت سے لوگ چڑیا گھرکی سیر کرنے اور جانوروں کو دیکھنے آئے تھے۔

ہر طرف جانوروں کے بڑے بڑے پنجرے تھے، جن کے اردگرد والدین اپنے بچوں کو لے کر کھڑے تھے۔ سعید یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ وہ سب سے پہلے پرندوں کے پنجرے کی طرف بڑھااور اپنے بہن بھائیوں کو بھی آواز دے کر بلایا اور کہا ’’یہ دیکھو مور !کتنا خوبصورت ہے۔اس کے پر کتنے پیارے ہیں اور تو اور یہ کیسے اپنے پر کھولے ناچ رہے ہیں‘‘۔

اس کے بعد سعید اور اس کے بہن بھائی بطخ کے پنجرے کے پاس گئے اور اس نے اپنے تایا ابو سے سوال کیا ’’بطخیں پانی میں کیوں رہتی ہے؟‘‘

 تایا ابو نے جواب دیا’’بیٹا! بطخ کا شمار پالتو جانوروں میں ہوتا ہے۔ اسے دنیا بھر میں انڈوں اور گوشت کیلئے پالا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا پرندہ ہے جو خشکی اور تری دونوں جگہوں پر رہتا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بطخ کی کچھ اقسام ہوا میں بھی اڑتی ہیں‘‘۔

بطخوں سے آگے طوطے ،چڑیاں اور کبوتر کے پنجرے تھے۔بچے پرندوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور تایا سے سوالات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔اس کے بعدبچے اور تایا جان شیرکے پنجرے کی طرف بڑھے۔جہاں ایک شیر اپنے پنجرے میں غصے کی حالت میں ٹہل رہا تھا۔وہ کبھی غصے سے دھاڑنے لگتا تو کبھی گوشت کھانے لگتا۔

شیر کو دیکھنے کے بعد تو بچوں کی خوشی کی انتہاء نہیں تھی۔پھر شیر کے پنجرے سے آگے بڑھتے ہوئے سب لوگ بندر کے پنجرے کی طرف بڑھے ۔وہاں کچھ بندر اچھل کود میں مصروف تھے اور کچھ بندر پھل کھا رہے تھے۔سعید اور اس کے بہن بھائیوں نے بھی بندر کو کیلا کھانے کو دیا۔

سعید کو سامنے ہاتھی کا پنجرہ نظر آیا تو و بھاگتا ہوا وہاں گیا اور دیکھا کہ ہاتھی سونڈ کو ہلا رہا ہے ۔سعید نے آج پہلی بار ہاتھی کو حقیقت میں دیکھا تو وہ اس قدر خوش تھاجس کی انتہاء نہیں تھی۔

 اب سب بہت تھک چکے تھے اور سب کو بھوک بھی لگ رہی تھی۔تایا نے سب کو برگر اور بوتلیں لے کر دیں اور واپسی کا پروگرام بنایا۔یہ سیر سعید اور سب بچوں کیلئے بہت یاد گار تھی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔