پاکستان میں گردوں کے مسائل: اسباب اور حل

تحریر : ڈاکٹر نسرین صدیق


گردے انسانی جسم کے انتہائی اہم اعضامیں سے ہیں جو خون کو صاف کرنے، زہریلے مادوں کو خارج کرنے اور جسمانی توازن برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں گردوں کے امراض تیزی سے ایک بڑے صحت کے بحران کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ہر سال ہزاروں افراد گردے فیل ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جبکہ لاکھوں کو ڈائیلاسز یا گردے ٹرانسپلانٹ جیسی مہنگے علاج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف صحت کے شعبے کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ معاشرتی و اقتصادی عدم مساوات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم پاکستان میں گردوں کے مسائل کی بنیادی وجوہات، ان کے اثرات، اور ممکنہ حل پر تفصیل سے بات کریں گے۔

گردوں کے مسائل کی اقسام  

پاکستان میں گردوں سے متعلقہ بیماریوں کی کئی اقسام ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:  

گردے فیل ہونا ( Kidney failure ): یہ ایک شدید کیفیت ہے جس میں گردے اپنے افعال انجام دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ اس کی دو اقسام ہیں: ایکیوٹ (عارضی) اور کرونک (دیرینہ)۔  

گردوں کی پتھری ( Kidney Stones):پاکستان میں یہ مسئلہ عام ہے، خاص طور پر صاف پانی کی کمی اور غیر متوازن غذا کی وجہ سے۔  

گردوں کی سوزش (Nephritis): انفیکشن یا خودکار قوت مدافعت کے مسائل کی وجہ سے گردوں کے خلیات کو نقصان پہنچتا ہے۔  

پولی سسٹک کڈنی ڈیزیز (PKD): یہ ایک موروثی بیماری ہے جس میں گردوں پر سسٹ بن جاتے ہیں۔  

اسباب:  

پاکستان میں گردوں کے امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے متعدد عوامل ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:  

 ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر: ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر گردوں کے امراض کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ہر تیسرا بالغ شخص ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔ یہ دونوں بیماریاں گردوں کے خلیات کو بتدریج تباہ کر دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں گردے فیل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔  

صاف پانی کی کمی: ملک کے بیشتر علاقوں میں صاف پانی کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آلودہ پانی میں موجود کیمیکلز، بھاری دھاتیں (جیسے لیڈ اور آرسینک)، اور بیکٹیریا گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں زیرِ زمین پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ پائی گئی ہے۔  

 ادویات کا غیرمناسب استعمال: اینٹی بایوٹکس، درد کش ادویات، اور جعلی دواؤں کا بے دریغ استعمال گردوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔ دیہات میں لوگ اکثر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جس سے گردوں کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔  

موروثی عوامل:پاکستان میں شادیوں میں خاندان کے اندر رشتہ داریاں (کنسینگنیئس میرجز) عام ہیں، جس کی وجہ سے موروثی بیماریاں جیسے پولی سسٹک کڈنی ڈیزیز کی شرح بڑھ جاتی ہے۔  

 صحت کے نظام کی ناکامی:گردوں کے امراض کی بروقت تشخیص اور علاج کے لیے جدید سہولیات کا فقدان ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسز مشینوں کی کمی، ماہر نیفرولوجسٹس (گردے کے ڈاکٹرز) کی عدم دستیابی، اور ٹرانسپلانٹ سہولیات کا نہ ہونا مریضوں کو نجی شعبے کی مہنگی سہولیات پر مجبور کر دیتا ہے۔  

اثرات: 

گردوں کے مسائل کا اثر نہ صرف مریض بلکہ اس کے خاندان اور معاشرے پر بھی پڑتا ہے:  

معاشی تباہی: ڈائیلاسز کا ایک سیشن ہزاروں روپے میں ہوتا ہے، جبکہ گردے ٹرانسپلانٹ کی لاگت لاکھوں میں ہے۔ اکثر خاندان قرض لے کر یا جائیداد بیچ کر علاج کرواتے ہیں، جو انہیں غربت کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔  

ذہنی دباؤ: گردے فیل ہونے کے مریضوں کو ہفتے میں 2،3 بار ڈائیلاسز کروانا پڑتا ہے، جو نہ صرف تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ ان کی ذہنی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔  

معاشرتی بدنامی: خواتین میں گردے کے امراض کی صورت میں شادیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، جبکہ کچھ معاشروں میں گردے ٹرانسپلانٹ کو اخلاقی طور پر غلط سمجھا جاتا ہے۔  

حل کے لیے تجاویز: 

گردوں کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے:  

بچاؤ کی حکمت عملی:

ذیابیطس اور بلڈ پریشر پر کنٹرول: سرکاری سطح پر مفت بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر چیک اپ کیمپ لگائے جائیں۔ عوامی آگاہی مہموں کے ذریعے لوگوں کو متوازن غذا اور ورزش کی ترغیب دی جائے۔  

صاف پانی کی فراہمی: حکومت کو چاہیے کہ پینے کے پانی کے ذرائع کو آلودگی سے پاک کیا جائے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں۔  

ادویات کا مناسب استعمال:ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویات کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ عوام کو جعلی ادویات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔  

 صحت کے نظام کی بہتری: 

مفت ڈائیلاسز سہولیات:سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسز مشینوں کی تعداد بڑھائی جائے اور غریب مریضوں کے لیے یہ سروس مفت فراہم کی جائے۔  

گردے ٹرانسپلانٹ کو فروغ: پاکستان میں گردے ٹرانسپلانٹ کے لیے قانونی اور اخلاقی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ عوامی سطح پر یہ پیغام پھیلایا جائے کہ گردے عطیہ کرنا ایک انسانی خدمت ہے۔  

ماہر ڈاکٹرز کی تربیت: میڈیکل کالجوں میں نیفرولوجی کی تعلیم کو فروغ دیا جائے تاکہ گردوں کے ماہر ڈاکٹرز کی کمی پوری ہو سکے۔  

 عوامی آگاہی اور تعلیم:  

سکولوں اور کالجوں میں گردوں کی صحت سے متعلق لیکچرز کا اہتمام کیا جائے۔  

 میڈیا کے ذریعے یہ پیغام پھیلایا جائے کہ گردوں کے امراض کی ابتدائی علامات (جیسے پیشاب میں تبدیلی، تھکاوٹ، سوجن) کو نظرانداز نہ کیا جائے۔  

غیر سرکاری تنظیموں کا کردار:  

غیرتنظیموں کو مزید وسائل دیے جائیں تاکہ وہ غریب مریضوں کو مفت علاج فراہم کر سکیں۔ امیر افراد اور کاروباری اداروں کو گردے کے مریضوں کے لیے عطیات دینے کی ترغیب دی جائے۔   

پاکستان میں گردوں کے مسائل صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہیں جو غربت، جہالت اور صحت کے نظام کی ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کرے، صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے، اور عوامی آگاہی مہموں کو فروغ دے۔ عوام کو بھی اپنی صحت کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اپنانا ہوں گی۔ یاد رکھیں کہ گردے اللہ کی ایک نعمت ہیں، ان کی حفاظت ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔  

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے