اسلام محبت و الفت کا دین
اسلام محبت والفت کا دین ہے۔یہ ان عوامل اوراسباب کی طرف رہنمائی کرتاہے کہ جن کی وجہ سے باہمی الفت و محبت پروان چڑھتی ہے۔ شیطانی طاقتوں کو یہ بات قطعا گوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں پیار و محبت سے زندگی گزار یں۔ وہ دن رات کوشش کرتے ہیں کہ ان کی محبت کو نفرت میں اور قربت کو دوری میں بدل دیں، مسلمانوں میں بغض و عداوت پیدا کرنا اور ان کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنا اس کی اوّلین ترجیح ہے۔
اسلام نے نفرت کا سبب بننے والے ان تمام تر اقوال وافعال کی بیخ کنی کی اور ان پر سخت وعیدیں سنائیں تا کہ ایسے ان تمام عناصر کی حوصلہ شکنی ہو، جو کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کے بارے میں اپنے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں یا نفرت انگیز چیزوں کو رواج دیتے ہیں ہے۔ ذیل میں چند ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے آپس میں نفرتیں پھیلتی ہیں تا کہ ان سے بچا جا سکے اور ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں تا کہ ان کو اختیار کیا جاسکے۔
باہمی نفرت کے اسباب
وہ اسباب جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے سے نفرت کرنے لگتاہے ان میں سے چندایک حسب ذیل ہیں۔
بلا وجہ سختی کرنے والے لوگ کبھی دوسروں کو اپنے قریب نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے دلوں میں اپنا احترام اور محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ بات بات پر ڈانٹنا، جھڑک دینا،خونی رشتوں کو بھی توڑ دیتا ہے جبکہ نرم لہجہ ،نرم گفتگو اور اچھا اخلاق ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے غیر بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم،رسول محتشم ﷺسے فرمایا: (اے حبیبِ مکرمﷺ!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ﷺان کیلئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ ﷺ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپﷺ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کیلئے بخشش مانگا کریں (آل عمران: 159)۔ سخت مزاج لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں؟ وہ سخت مزاج، بدخو اور تکبر کرنے والے ہیں(صحیح بخاری: 4918)۔
لوگوں کو کسی بھی اعتبار سے اذیت دینا، نفرت اور دوری کا باعث بنتا ہے، انسان تو انسان جانوربھی اذیت دینے والے افراد سے دور بھاگتے ہیں، ایسے افراد کو نبی کریمﷺ کے مبارک فرامین پر غور کرنا چاہیے، آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں ،قیامت کے دن، مرتبے کے اعتبار سے ،سب سے بد تر وہ شخص ہو گا جس کو لوگ اس کے شر کی وجہ سے چھوڑ دیں‘‘(صحیح بخاری: 6232)۔ نبی کریم ﷺکاارشادگرامی ہے: جس نے مسلمان کو تکلیف دی،اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی (معجم الاوسط: 3607) ۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے‘‘(کنزالعمال: 7822)۔
ہمسائیگی میں اگر کوئی کسی سے پریشان ہے تو انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادگرامی ہے: ’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، پوچھا گیا کون ہے وہ اے اللہ کے رسولﷺ! تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا ہمسایہ اس کی اذیت سے محفوظ نہیں‘‘(صحیح بخاری: 6016)
متکبر شخص کبھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام نہیں بن سکتا۔ لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ متکبر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور اعلیٰ خیال کرتا ہے۔ تکبر کبھی مال و دولت کی وجہ سے، کبھی عہدہ و منصب کی وجہ سے اور کبھی حسن و خوبصورتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تکبر کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے۔ رسول کریم ﷺکافرمان ہے : جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو،وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک شخص نے عرض کیا ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اس کاجوتا اچھا ہو۔ تو آپﷺنے فرمایا: اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے(صحیح مسلم: 91)۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے: ’’کسی بھی شخص کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے(صحیح مسلم: 2564)
بعض لوگ دوسروں کو ان کی غربت ، ان کی برادری، رنگ و نسل یا کسی پیدائشی نقص کا طعنہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کبھی کسی عمل کی وجہ سے ، یا کسی غلطی کی وجہ سے مذاق اڑا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسا رویہ رکھنے والوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مومن اور سچا مسلمان ایسا نہیں کرتا جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مومن طعنہ زنی کرنے والا،لعنت کرنے والا نہیں ہوتا(الادب المفرد، ص 237)۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کا مذاق اڑانے سے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں)،ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں‘‘ (الحجرات 11:49)۔
دھوکہ دینے اور مکر و فریب کرنے والے افراد دوسروں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ دھوکہ دینے والانہ صرف اپنااعتمادکھودیتاہے بلکہ وہ لوگوں کی نظرمیں اس قدرمعیوب ہو جاتا ہے کہ لوگ کبھی بھی اسے اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے ہم سے دھو کہ کیا، وہ ہم میں سے نہیں، مکر اور دھوکہ دینے والا آگ میں ہے(صحیح ابن حبان: 5559)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو شخص ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں(صحیح مسلم: 283)۔
عصرحاضرمیں دھوکہ ایک معمول بن چکاہے عیب دار اور خراب چیزیں بڑی چالاکی سے لوگوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔ خراب اور ملاوٹ شدہ چیزیں اصلی اور خالص ظاہر کر کے بیچ دی جاتی ہے ، حالانکہ اس طریقے سے اشیاء بیچنا شریعت اسلامی کے تجارتی اصولوں کے برعکس ہے۔
نفرتوں کے خاتمے کاحل
نفرتوں کومٹانے اورمحبت والفت کوپروان چڑھانے والے امور حسب ذیل ہیں:
سلام ایک مسلمان کا دوسرے کیلئے تحفہ اور حق ہے۔شریعت اسلامیہ نے اسے امت مسلمہ کی باہمی محبت اورالفت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کو سلام کہتا ہے تو یہ اس کیلئے سلامتی ، رحمت اور برکت کی دعا کرتا ہے۔ جب یہ دعادل سے اٹھتی ہے تو محبت کا باعث بنتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو سلام تو کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ سلام دل سے کہا جائے تو پھر محبت پیدا ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: تم اس وقت تک جنت نہیں جاسکتے جب تک مومن نہ بن جاؤ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جب تم اسے اختیار کرو تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے ، آپس میں سلام عام کیا کرو (صحیح بخاری:54)
دوسروں کو مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے ملنا بھی ایک صدقہ ہے۔ مسکراہٹ بہت قیمتی سرمایا ہے جبکہ اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ اس پر اجر و ثواب ملتاہے۔رسول کریم ﷺنے فرمایا: ’’اپنے بھائی سے تمہارامسکراکرملنابھی ایک صدقہ ہے‘‘ (جامع ترمذی:1956)۔
اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی رضا کیلئے، بغیر کسی دنیاوی مفاد کے، مسلمان بھائی سے ملاقات یا تیمارداری کیلئے جانا ایک انتہائی عظیم عمل ہے، اس سے محبت پیدا ہوتی ہے، دوسرے کے دل میں احترام بھی بڑھتا ہے اور جنت میں گھر کی نوید بھی ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ جس نے مریض کی عیادت کی یا کسی مسلمان بھائی کی زیارت کی، تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے، تمہاری زندگی مبارک ہو ،تمہارا چلنا مبارک ہو اور تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کر لیا‘‘(جامع ترمذی: 2008)
معاشرتی زندگی میں پیار و محبت بڑھانے میں باہمی ہدایاو تحائف وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تحفہ محبت کی کنجی ہے، تحفہ محبت کو پروان چڑھاتا ہے، دوست احباب، عزیز و اقارب ،رشتہ داروں، محلے داروں اور استاد شاگرد سے خلوص ومحبت کا اظہار کرنے اورمحبت کو اور زیادہ بڑھانے کیلئے تحفے تحائف اور ہدایا وغیرہ کا تبادلہ باہمی دلوں کے جوڑنے اورباہمی رنجشوں اور نفرتوں کو مٹانے کا عمل ہے۔رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے‘‘ (موطا امام مالک:1264)۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ آپس میں ہدیے/ تحفے دیاکرو، کیونکہ ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش (نفرتوں) کو دُور کرتاہے اور ایک پڑوسی دوسری پڑوسی کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے ،اگرچہ وہ بکری کے کھر ہی (کا ہدیہ) کیوں نہ ہو (جامع ترمذی: 2130)
دین اسلام خیر خواہی کا دین ہے ، انسان جس طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ خیر خواہی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ دینی اعتبار سے بھی اور دنیاوی اعتبار سے بھی۔ خیر خواہی کے سب سے زیادہ حق دار گھر کے افراد ہیں ،جہاں ان کی دنیا کی بہتری کیلئے کوشش اور محنت کی جاتی ہے تو وہاں ان کی دینی اعتبار سے بھی خیر خواہی کی جائے۔ دینی اعتبار سے خیر خواہی نہ کرنے والا قریبی ہو کر بھی دشمن ہی رہتا ہے۔ اس لیے کہ جس کو آپ کی آخرت کی فکر نہیں تو آپ کا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کے قائم کرنے ، زکوٰۃ کے ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔(صحیح بخاری: 57)
قرآن وحدیث کی روشنی میں سخت رویہ، دوسروں کو اذیت دینا، غرورو تکبر، طعنہ زنی،مذاق اڑانا، دھوکہ دینا اور مکرو فریب نفرتوں کے بنیادی اسباب ہیں۔ ان کی بجائے ایک دوسرے کوسلام کہنا، مسکرا کر ملنا، بڑوں سے ملاقات کرنا، بیمار کی تیمارداری کرنا،تحائف کاتبادلہ کرنا، دوسروں کی خیر خواہی اورحسنِ سلوک محبتوں اور الفتوں کوپروان چڑھاتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کوبالعموم اور پاکستانی معاشرہ کوبالخصوص نفرتوں سے بچنے اور محبتوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔امین