رمضان المبارک کی آمد آمد!
رمضان اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، اسے رمضان المبارک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ نزول قرآن کا بھی مہینہ ہے اور قرآن سے بہت زیادہ لگاؤ کے سبب اسے قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی مہینہ میں ایک ایسی رات ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم میں سے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے وہ اس کے روزے رکھے‘‘ (البقرہ: 185)۔
رمضان المبارک میں حضور نبی کریم ﷺ کے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق اور محبت میں آپﷺ راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔
صیامِ رمضان اور معمولاتِ نبویؐ
حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔نبی کریم ﷺ ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘(المعجم الاوسط، 4: 558، حدیث: 3951، مسند احمد بن حنبل، 1: 259)
رمضان کا چاند دیکھنے پر دعا
نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے۔ جب حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے: ’’یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 9798)
رمضان المبارک کو خوش آمدید کہنا
حضور نبی کریم ﷺ اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر استقبال کرتے۔جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور ﷺ صحابہ کرام سے دریافت کرتے: ’’تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے؟‘‘(یہ الفاظ آپ نے3 دفعہ فرمائے)،(الترغیب والترہیب2: 105)۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو، جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کردیا جاتا ہے‘‘ (الترغیب والترہیب، 2: 105)
سحر ی و افطاری کی برکات
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور ﷺ بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے‘‘ (صحیح بخاری: 1823)
ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: حضرت ابوقیسؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1096)۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو‘‘(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)
حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں‘‘ (مسند احمد بن حنبل، 3: 12)
روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو، خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور ﷺ کی سنت ہے۔دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کیلئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو‘‘( ابن ماجہ: 1693)
امام نووی رحمہ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دُعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دُعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور ﷺ کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعدؓ ہیں، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے‘‘(صحیح مسلم: 1098)
اسی طرح دوسری حدیث میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے‘‘(ابو داؤد، 1: 328، کتاب الصوم، حدیث: 2350)
حدیث قدسی ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں(جامع الترمذی: 700)، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے بھلائی پر قائم رہیں گے۔
سحری میں تاخیر
حضور نبی کریم ﷺ سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے‘‘ (السنن الکبری، 4: 238)۔آپﷺ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا، جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام ؓ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری کرلیتے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی افطاری
حضورﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے‘‘ (جامع الترمذی: 658)
معمول قیامِ رمضان
نبی کریم ﷺ کا دوسرا مبارک معمول رمضان کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ کھڑے رہنے اور نماز، تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے، اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور ﷺ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت بارے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا، وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے، جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا‘‘ (سنن نسائی: 2208)
تراویح کی شرعی حیثیت
نماز تراویح کا سنت مؤکدہ ہونا حدیث سے ثابت ہے۔نبی کریم ﷺ نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا ہے۔ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے، جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔
معمول ختم قرآن
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے)جس میں قرآن اتارا گیا ہے‘‘(البقرہ:185)۔نبی کریم ﷺ کا دورانِ رمضان المبارک ایک بارختم قرآن کا معمول تھا اور آپ ﷺ نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
معمول تہجد
رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم ﷺ کی نماز تہجد کی ادائیگی کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے۔ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ آپ ﷺ سے منسوب ہے۔آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے صالحین کا یہ عمل رہا ہے‘‘(سنن الترمذی: 3549)۔نماز تہجد کیلئے نماز عشاء کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے۔ یہی عمل افضل و مستحب ہے، بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔
کثرتِ صدقات و خیرات
حضور نبی کریم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’جب جبرائیل امین ؑآجاتے تو آپﷺ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی‘‘ (صحیح بخاری: 1803)
معمول اعتکاف
رمضان المبارک میں نبی کریمﷺ باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے، کبھی کبھار آپ ﷺ نے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا لیکن جب آپ ﷺ کومطلع کر دیا گیاکہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں: حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے‘‘(صحیح البخاری، کتاب الاعتکاف، حدیث: 1922)