اُم المومنین، آبروئے حرم نبوی حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

آپؓ نہایت سنجیدہ، سخی، قناعت پسند، عبادت گزار اور رحم دل تھیں
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کئی فضیلتیں اور نسبتیں حاصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی پاکدامنی کی گواہی دی اور قرآن مجیدکی سورۂ نورکے دو رکوع ان کی برات میں نازل کیے۔ آپؓ کا ہار گم ہونے کی صورت میں صحابہ کرامؓ اور امت کیلئے آیت تیمم نازل فرمائی۔ حضرت جبریل امین ؑ نے نبی کریم ﷺ کو نکاح سے پہلے آپؓ کی تصویر دکھائی اور بتایا کہ یہ آپﷺ کی زوجہ ہیں۔ حضوراکرمﷺ کو ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبت آپؓ ہی سے تھی۔ آپؓ ہی کی گود مبارک میں آقا کریم ﷺ نے وصال فرمایا اور آپؓ ہی کے حجرے کو روضہ رسولؐ ہونے کاشرف حاصل ہے۔
آپؓ واحد اُم المؤمنین ہیں جو حرم رسولﷺ میں کنواری داخل ہوئیں، امت محمدیہ تک عورتوں کے اکثر مسائل اور چوتھائی دین احادیث کی صورت میں آپؓ کے ذریعہ سے ہی پہنچا۔ آپؓ امت محمدیہ کی سب سے بڑی محدثہ اورفقیہ ہیں۔ آپؓ خلیفہ الرسولؐ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی لخت جگر ہیں۔
نام و سلسلہ نسب:عائشہ، صدّیقہ اور حمیرہ لقب، اُمّ عبداللہ کنیت،قریش کے خاندان بنو تمیم سے تھیں۔ والدہ کا نام امّ رومان بنت عامر تھا۔ آپؓ بعثت نبوی کے 4 یا 5سال بعد پیدا ہوئیں۔
ذہانت اورحاضرجوابی: حضرت عائشہ ؓکے ذریعہ چونکہ دین کا بہت بڑا حصہ امت تک پہنچنا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی غیر معمولی ذہانت عطا فرمائی تھی۔ آپؓ بچپن میں اترنے والی آیات واحکام کو بھی یاد رکھتی تھیں۔آپ ؓفرماتی ہیں جب نبی کریمﷺ پر سورۃ القمرکی آیات نازل ہوئیں اس وقت میں بچی تھی اور کھیل رہی تھی (صحیح بخاری: 4876)۔
نکاح و رخصتی:مستند اور معتبر روایات کے مطابق جب حضور ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے نکاح فرمایا تو اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت عمر مبارک نو سال تھی۔ (صحیح بخاری، ج2، ص771)، بعض روایات میں نکاح کے وقت عمر سات سال بھی آئی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ خود فرماتی ہیں ’’ رسول اللہ ﷺ نے جب مجھ سے شادی کی تو میں سات سال کی تھی۔(ابو داؤد: 2121) نبی کریمﷺ نے سیدہ عائشہؓ کاحق مہر500درہم مقرر فرمایا (سیرالصحابہ، ج2، ص23)۔ اس نکاح سے مقصود نبوت و خلافت کے رشتہ کا استحکام اور حضرت عائشہؓ کی غیرمعمولی ذہانت سے حضورﷺ کی خلوت والی زندگی کو امت تک پہنچانا تھا۔
فضائل ومناقب
اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کو بیشمار فضائل سے نوازا تھا، ان میں بعض فضیلتیں ایسی ہیں جو صرف حضرت عائشہ ؓ کو عطا ہوئیں۔ خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی خوبیاں عطا کی ہیں جو میرے علاوہ کسی کو نہیں ملیں۔
(1)نکاح سے پہلے فرشتے نے آپﷺ کے سامنے میری صورت پیش کی۔ جیساکہ امام ترمذی سیدہ عائشہ ؓسے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں: حضرت جبرئیل ؑ ان کی تصویر سبز رنگ کے ریشم میں لپیٹ کر نبی کریمﷺ کے پاس لائے اور کہا: یہ دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی رفیقہ حیات ہیں (جامع ترمذی:3880)۔(2)میری عمر سات سال تھی جب رسول اللہﷺ نے مجھ سے نکاح فرمایا۔ اتنی چھوٹی عمر میں حضورﷺ نے کسی اور بیوی سے نکاح نہیں فرمایا۔(3)جب میری رخصتی ہوئی تو میری عمر نو سال تھی۔(4)ازواج مطہرات میں سے صرف میں کنواری پیغمبر ﷺ کے حرم میں آئی۔(5) حضورﷺ پر وحی میرے بستر پر نازل ہوتی۔ (6)حضورﷺ سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے، (7)اللہ تعالیٰ نے میری برات کیلئے قرآن کریم کی آیات نازل فرمائیں۔ (8)میں نے جبرائیل امین ؑ کو دیکھا ہے۔ (9) حضور ﷺ کا انتقال مبارک میرے حجرے میں ہوا(المستدرک للحاکم:6790)۔
علمی فضل وکمال
نبی کریم ﷺ کے وصال کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 18 سال تھی۔ 48 برس انہوں نے عالم بیوگی میں بسر کئے، اس تمام عرصے میں وہ تما م عالم اسلام کیلئے رشد و ہدایت، علم و فضل اور خیروبرکت کا عظیم مرکز بنی رہیں۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ہر قسم کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔علمی اعتبار سے حضرت عائشہؓ کو تمام ازواج مطہراتؓ بلکہ اکثر صحابہ کرامؓ پر فوقیت حاصل تھی۔ بہت سارے مسائل ایسے تھے جن کو آپ کی ذات گرامی نے حل فرمایا ہے (جامع الترمذی: 3883) ۔
حضرت عطا فرماتے ہیں حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ، سب سے بڑی عالمہ اور سب سے اچھی رائے والی تھیں (المستدرک للحاکم: 6806) عروہ بن زبیر کا قول ہے ’’قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ، شاعری ،طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا (المستدرک: 6793)، امام زہری کہتے ہیں کہ اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہؓ کا علم وسیع تر ہوگا (المستدرک : 6806)۔
حضرت عائشہؓ کا شمار مجتہدین صحابہ میں ہوتا ہے، اس حیثیت سے وہ اس قدر بلند ہیں کہ ان کا نام حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ کے ساتھ لیا جا سکتاہے۔آپؓ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓکے زمانہ میں فتویٰ دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ مکثر ین صحابہ میں داخل ہیں۔ ان سے 2210 احادیث مروی ہیں، جن میں سے 174حدیثوں پرشیخین نے اتفاق کیا ہے۔ امام بخاری نے منفرداً ان سے 54 حدیثیں روایت کی ہیں، 68حدیثوں میں امام مسلم منفرد ہیں۔
علم اسرار الدین کے متعلق بھی ان سے بہت سے مسائل مروی ہیں،چنانچہ قرآن مجید کی ترتیب نزول، مدینہ میں کامیابی اسلام کے اسباب، غسل جمعہ، نماز قصر کی علت، صوم عاشورہ کا سبب،حج کی حقیقت اور ہجرت کے معنی کی انہوں نے خاص تشریحیں کی ہیں۔ طب کے متعلق وہی عام معلومات تھیں جو گھر کی عورتوں کو عام طور پر ہوتی ہیں۔ البتہ تاریخ عرب میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ اسلامی تاریخ کے متعلق بھی بعض اہم واقعات ان سے منقول ہیں،مثلاً آغاز وحی کی کیفیت،ہجرت کے واقعات، واقعہ ا فک، نزول قرآن اور اس کی ترتیب،نماز کی صورتیں، حضورﷺ کے مرض الموت کے حالات، غزوہ بدر، احد، خندق،قریظہ کے واقعات،غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف کی کیفیت، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت، حجۃ الوداع کے ضروری حالات، حضورﷺ کے اخلاق و عادات، خلافت صدیقی، حضرت فاطمہؓ اورازواج مطہرات کا دعویٰ میراث کی تمام تفصیل ان ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔
ادبی حیثیت سے وہ نہایت شیریں کلام اور فصیح اللسان تھیں۔ ترمذی میں موسی ابن طلحہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔’’میں نے حضرت عائشہؓ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا‘‘ (مستدرک حاکم، ج 4، ص11)۔
اخلاق وعادات
اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بلند مرتبہ رکھتی تھیں، وہ نہایت قانع تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتیں، اگرچہ خودستائی نا پسندتھی تا ہم نہایت خوددار تھیں، شجاعت اور دلیری بھی ان کا خاص جو ہر تھا۔
ان کا سب سے زیادہ نمایاں وصف جودوسخا تھا، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ فرماتے تھے کہ ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا، ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام تک سب خیرات کر دیئے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا،اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کیا کہ افطار کیلئے کچھ نہیں ہے، فرمایا پہلے سے کیوں نہ یاد دلایا۔ (مستدرک حاکم، ج 3،ص13)
امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عروہ ؓ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؓنے ان سے فرمایا:اے بھانجے! ہم دو تین چاند دیکھتے اور حضورﷺ کے گھروں میں آگ نہیں جلتی تھی۔ حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کی: ’’آپؓ کی گزر اوقات کیسے ہوتی تھی؟‘‘ آپؓ نے فرمایا:کھجور اور پانی پر ہوتی تھی۔ سوائے اس کے کچھ انصار آپﷺ کے پڑوسی تھے۔ اُن کی کچھ دودھ والی اونٹنیاں تھیں اور وہ ان کا دودھ آپﷺ کی خدمت میں بھجوایا کرتے تھے اور آپ ﷺ وہ دودھ ہمیں پلادیا کرتے تھے(صحیح بخاری: 6459)۔
امام مالک بن انس تک نبی کریمﷺ کی زوجہ ام المومنین سیدنا عائشہ صدیقہؓ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ: ایک مسکین نے ان سے کچھ مانگا اس وقت وہ روزہ دار تھیں۔ان کے حجرہ مقدس میں صرف ایک روٹی تھی انہوں نے اپنی لونڈی سے فرمایا: ’’یہ روٹی اس مسکین کو دے دو‘‘۔ اس لونڈی نے عرض کی: ’’اُم المومنین آپ روزہ کس سے افطار کریں گی؟‘‘۔ سیدہ عائشہ صدیقہ نے فرمایا: ’’یہ روٹی اس مسکین کو دے دو‘‘۔لونڈی نے کہا: وہ روٹی میں نے مسکین کو دے دی۔جب شام ہوئی تو ہمیں کسی گھر والوں یا کسی نے ہدیہ بھیجا جو ہمیں بکری یا روٹی بھیجا کرتا تھا۔ اُم المومنین نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’اس میں سے کھاؤ، یہ تمہاری روٹی میں سے بہتر ہے‘‘۔ (مؤطا امام مالک : 3655)
نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گزار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتیں، فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ آئے اور مجھ کومنع کرے تب بھی میں باز نہ آوں گی، آنحضرتﷺ کے ساتھ راتوں کو اُٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور اس کی اس قدر پابند تھیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہو جاتی تو نماز فجر سے پہلے اٹھ کر اس کو پڑھ لیتی تھیں، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں، ان کا غلام امامت کراتا اور وہ مقتدی ہوتیں۔
اکثر روزے رکھا کرتی تھیں،حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہر سال اس فرض کو ادا کرتی تھیں، غلاموں پر شفقت کرتیںاوران کوخریدکرآزادکرتی تھیں،ان کے آزادکردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ (شرح بلوغ المرام،کتاب العتق،ج2، ص28)
13 ہجری میں حضرت عائشہ سایہ پدری سے بھی محروم ہو گئیں اور عہد فاروقی کا آغاز ہوا۔ حضرت عمرؓ نے تمام ازواج مطہّرات کا دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر کیا البتہ امام حاکم رحمۃ اللہ کے قول کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو 12ہزار درہم سالانہ دیے جاتے تھے۔ اس کی وجہ حضرت عمرؓ یہ بیان فرماتے تھے کہ وہ حضور اکرمﷺ کو بہت محبوب تھیں (مستدرک حاکم،حدیث نمبر6723)۔
وفات:علامہ ابن کثیرلکھتے ہیں: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات17 رمضان المبارک، منگل کے دن اور 58سال کی عمرمیں 58 ھ کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپؓ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔آپ کی نماز جنازہ سیدنا ابو ہریرہؓ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا۔ (البدایۃ والنیایۃ، لابن کثیر، ج : 4، جز : 7، ص : 97)