نمک کے استعمال میں احتیاط برتیں!
کیمیاوی زبان میں سوڈیم کلورائیڈ سب سے عام نمک ہے۔ یہ نمک کے قدرتی ذخائر یا پھر جھیلوں اور سمندری پانی کی تبخیر سے حاصل کیا جاتا ہے۔
نمک کی کئی اقسام ہماری روزمرہ کی خوراک اور دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں، جیسے لاہوری نمک، نمک سانبھر، نمک سیاہ، سمندری نمک اور اب آئیوڈین ملا نمک۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نمک کے سب سے بڑے قدرتی ذخائر ہمارے وطن کھیوڑہ میں واقع ہیں، لیکن زیادہ نمک چین، جاپان، جنوبی کوریا اور مشرق بعید کے باشندے استعمال کرتے ہیں۔
ہماری روزمرہ کی ضرورت محض ڈیڑھ گرام ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ چھ گرام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نمک سے خوراک میں ذائقہ پیدا ہوتا ہے اور غذا میں قدرتی طور پر نمک موجود ہونے کے باوجود ہمارے منہ کا ذائقہ ہمیں زائد نمک کھانے پر مجبور کرتا ہے۔
حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی غذا مثلاً گوشت، مچھلی، انڈا اور دودھ میں نمک کی کافی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سبزیوں میں بھی ہماری جسمانی ضروریات کے لحاظ سے نمک مل جاتا ہے۔ البتہ روزمرہ کی عام غذاؤں، مثلاً روٹی، چاول اور آلو میں نمک کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اگر ان میں نمک شامل نہ کیا جائے تو یہ پھیکے اور بے مزہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس گوشت بغیر نمک ملائے بھی ذائقہ دیتا ہے، کیونکہ اس میں اناج کی نسبت قدرتی نمک زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں خوراک میں نمک کا استعمال ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ موذی امراض، قلبی بیماریاں، بلند فشار خون اور فالج نمک کے زائداستعمال ہی کی مرہون منت ہیں۔
نسل انسانی کے پوشیدہ قاتل مرض بلند فشار خون میں مبتلا انسان سر چکرانے، گردن کے پیچھے شریانوں میں تڑپ، تیز نبض، رنگت میں سرخی، نبض کی تیزی اور پسینے کی زیادتی جیسی اذیت ناک کیفیت میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی اجیرن بنا لیتا ہے۔ دراصل یہ خوراک میں نمک کی افراط کا ہی نتیجہ ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جو قبائل کم نمک کھاتے ہیں، ان میں فشار خون کی سطح معیاری پائی گئی ہے۔
طبی تحقیق والوں نے ایک تجربے کے دوران جب چوہوں کی غذا میں نمک کی مقدار بڑھا دی تو معلوم ہوا کہ ان کا فشار خون بلند ہو گیا۔ اسی طرح ایک اور تجربے کے دوران رضاکاروں کو زیادہ نمک کھلایا گیا تو ان کا بھی فشار خون بلند ہو گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنی غذا میں زائد نمک استعمال کرتے ہیں، وہ لامحالہ چکنائی بھی خوب کھاتے ہیں اور ان کے خون میں افراط روغن بھی ہوتی ہے، چونکہ ان کی رگوں میں نمک زیادہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے جسم کی چھوٹی نسیں سخت کھردری اور تنگ ہو جاتی ہیں۔ اس لیے نمک کو انسانی جسم کی نسوں کے لیے سم قاتل بھی کہا جاتا ہے۔
نمک فشار خون کی سطح کو بلند کر کے نہ صرف رگوں پر نامناسب دباؤ ڈالتا ہے بلکہ ان میں خراشوں اور کھچاؤ کا باعث بنتا ہے، جن سے جسم انسانی کی رگوں کے بند ہونے کا خطرہ پید ا ہونے کے بعد ان تمام عوام کا نتیجہ امراض قلب کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ بادی النظر میں تندرست آدمی جب نمک استعمال کرتا ہے تو اس کی صحت میں فوری طور پر کوئی نقصان ظاہر نہیں ہوتا، لیکن امراض قلب میں مبتلا شخص پر اس کے مضر اثرات فوری طور پر ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں قلبی دمہ، پیاس کی شدت اور پھیپھڑوں کا ورم ہو سکتا ہے۔ اگر معالج کی جانب سے امراض قلب کے مریضوں کی خوراک میں مکمل طور پر نمک بند کرنے کا مشورہ دیا گیا ہو تو یہ ضرور ہے کہ غذا کا قدرتی نمک بھی خوراک سے خارج کر دیا جائے، خصوصاً چاول، پالک اور گوشت کو ابال کر ان کا پانی نکال دیا جائے تو اس عمل سے بیش تر نمک غذا سے خارج ہو جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ زیادہ طاقت کی پیشاب آور دوا کھائی جا رہی ہے تو غذا میں نمک کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے صرف مستند معالج امراض قلب کے مشورے پر عمل کیا جائے۔
ہماری غذا میں نمک کی افراط، کھانے کی چیزوں، خمیری روٹی مکھن اور یخنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جو لوگ بیماری کے بعد مریضوں اور خصوصاً معمر افراد کو کسی بھی گوشت یا سبزی کی نمک والی یخنی پلا کر سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی کھوئی ہوئی طاقت بحال ہو گئی تو وہ یقینا غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ وہ انہیں نمک کی زیادتی کے باعث نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
مفادعامہ کا تقاضا ہے کہ ہم روزمرہ غذاؤں میں نمک کا استعمال نہایت اعتدال سے کریں، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ غذا میں موجود قدرتی نمک پر انحصار کیا جائے، البتہ موسم گرما میں سخت جسمانی مشقت کرنے والے کارکن جن کے کپڑے پسینے میں شرابور رہتے ہوں، وہ اپنی غذا میں ہلکا سا نمک ڈال سکتے ہیں۔ لیکن پر آسائش اور خشک ماحول میں کام کرنے والے افراد اس سے اجتناب کریں۔
خوراک میں نمک کی کمی کے باوجود سخت محنت کرنے میں کوئی قباحت نہیں، کیونکہ نمک کی ضرورت اور ذائقہ فطری نہیں، بلکہ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ یہ کیسی عقل مندی ہے کہ ایک جانب خوراک میں زائد نمک استعمال کر کے بلند فشار خون، فالج، سرطان، معدے کی رسولی، ذیابیطس اور امراض قلب کی موذی بیماریوں کو دعوت دی جائے اور دوسری جانب جسم کے فاضل نمک کو خارج کرنے کے لیے پیشاب آور دواؤں کا سہارا لیا جائے۔
آج کل بچوں میں بازاری اشیائے خورونوش مثلاً کرارے آلو کے چپس، پاپڑ، مسالے دار فرنچ فرائز، چنے چاٹ، دہی بڑے، گول گپے اور فاسٹ فوڈ کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ جن میں نمک کی افراط ہوتی ہے۔ اسی طرح زمانہ شیر خواری میں ماں کے دودھ کی نسبت دیگر اقسام کے دودھ میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ مائیں جب بچوں کو ٹھوس غذا کا آغاز کرواتی ہیں تو اکثر لاعلمی کے ذائقے کا یہی معیار بچے کے لیے عمر بھر کی غذا کا معیاری ذائقہ بن جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے گردے جسم سے فالتو نمک کا اخراج کرنے سے قاصر رہتے ہیں، اس لیے یہ بچے اوائل عمر ہی سے افراط نمک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس عمل سے بچوں کو مستقبل میں صحت کے حوالے سے جو نقصانات ہوں گے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بچوں کے وزن میں اضافے کا ایک اہم سبب ان کی غذاؤں میں نمک کی زائد مقدار کا شامل ہونا ہے۔ بچوں کوموٹاپے سے محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے کم سے کم نمک والی غذاؤں کا عادی بنائیں۔ نمک لگی مونگ پھلی، کاجو، پستے اور بیج وغیرہ، اچار، مختلف مسالے دار کھٹی میٹھی چٹنیوں، فاسٹ فوڈ اور بازاری پکوانوں کو نہایت اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ غذا پر نمک چھڑک کر نہ کھائیں۔ غذاؤں میں نمک کا کم سے کم استعمال ہی پورے گھرانے کی صحت و تندرستی کا ضامن بن سکتا ہے۔