بچے کے بولنے کی ابتدا!

تحریر : سارہ خان


اس میں شک نہیں کہ بچہ اس وقت بولنا شروع کرتا ہے جب اس کے اعضا اور اعصابی نظام میں پختگی آ جائے اور اسے اپنے ماحول سے خاصی واقفیت ہو جائے۔ بچہ اپنی تکلیف اور ناپسندیدگی کا اظہار پہلے سیکھتا ہے اور خوشی اور اطمینان کا اظہار بعد میں۔

لیکن ایک سال کی عمر تک بچہ اپنے احساسات کا اظہار آواز اورافعال کے ذریعے کرتا ہے۔ پہلے سال کے اختتام تک وہ چھوٹے چھوٹے الفاظ بولنا سیکھ جاتا ہے اور یہیں سے اصل زبان کا آغاز ہوتا ہے۔ زبان کی ترقی کا انحصار بہت حد تک گھر کے لوگوں کے باہمی تعلقات پر ہے۔ الفاظ کا صحیح مفہوم ان کو بار بار بولنے سے سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ جب بچہ اپنے گردو پیش کے حالات کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ چند مستقل قسم کی چیزوں اور مانوس انسانوں کیلئے ایک خاص جگہ معین کر لیتا ہے۔ بول چال میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ چیزوں کی مقامی اور ضمنی اہمیت کو اچھی طرح سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ مستقبل کیلئے منصوبے بناتا ہے اور گزرے ہوئے حالات کو یاد رکھتا ہے۔

عمر کے تقریباً دو ڈھائی سال پہلے بچے کو الفاظ کے لغوی معنی نہیں آتے۔ الفاظ اس کے لیے چند ایسے اشارے ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ افعال اور احساسات کو پہچان سکے۔ جو لفظ وہ استعمال کرتا ہے وہ ان جذبات کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں جن کے سلسلے میں اس نے وہ الفاظ پہلی مرتبہ استعمال کیے یا سنے ہوں۔ الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسے وہی تجربات یاد آ جاتے ہیں اور اس کی آواز یا چہرے پر وہی اثرات نمودار ہو جاتے ہیں۔ لفظ ’’بلی‘‘ کہتے وقت بچہ مختلف قسم کے مطالب بیان کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ’’مجھے بلی سے خوف آتا ہے‘‘ یا ’’ مجھے بلی پسند ہے‘‘ یا ’’ میں بلی کو بلانا چاہتا ہوں‘‘ ۔

کچھ عرصہ کے بعد اپنی ماں کی مدد سے وہ تصور اور خیالات کی دنیا کی حقیقت کو پہچاننے لگتا ہے۔ بہت سے الفاظ سیکھ لینے سے اس کے اور والدین کے درمیان محبت کا رشتہ زیادہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ جب وہ امی یا ابا کہتا ہے تو والدین بھولے نہیں سماتے اور ان کو دیکھ کر بچہ بھی خوش ہو جاتا ہے اور بار بار ان الفاظ کو دہراتا ہے۔ بلکہ دوسرے الفاظ کو سیکھ کر بار بار دہرانے لگتا ہے کیونکہ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس طرح نئے نئے الفاظ سیکھ کر وہ والدین پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔