قرآن و سنت کی روشنی میں آبی وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


پانی اور ہوا اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں، جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ پوری کائنات کی بقاء کیلئے ضروری ہیں۔ قرآن مجید میں واضح ہے کہ ہر جاندار کی زندگی پانی سے وابستہ ہے۔

زمین کی مردہ حالت کو بارش سے دوبارہ زندگی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے پانی کی فراہمی کے مختلف ذرائع پیدا کیے ہیں۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر پانی کی حفاظت ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی پانی کے ذمہ دارانہ استعمال کی تاکید فرمائی۔پانی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے، پانی اگر میٹھا ہو تو ہماری پیاس بجھانے، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے کے کام آتا ہے۔ پانی اگر کھارا ہو جیسے سمندر کا پانی تو اس کی افادیت بھی کچھ کم نہیں کیونکہ قدرت نے اس میں آلودگی کو جذب کرنے اور آلائشوں کو تحلیل کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

 جوں جوں تمدنی اور صنعتی ترقی ہورہی ہے ، پانی کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔زمین کابالائی حصہ زیادہ تر پختہ مکانوں اورپختہ سڑکوں کی وجہ سے ڈھک چکاہے جس کی وجہ سے زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ امرپوری دنیا کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ پانی کے بے جا استعمال کی وجہ سے آبی آلودگی کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے، اور اب اس کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے سلسلے میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔ قرآن وحدیث میں پانی کے ضیاع کی ممانعت اوراسے آلودگی سے بچانے اور اس کے ذمہ دارانہ استعمال پر زور دیاگیاہے۔اس مختصرمضمون میں آبی وسائل کے ذمہ دارانہ استعمال کے بارے میں اسلامی تعلیمات کوبیان کیاجارہاہے۔

پانی کاقابل تطہیرہونا

پانی سے متعلق شریعت نے جوعمومی احکام بیان کیے ہیں، ان میں سے ایک پانی کی صلاحیت تطہیر کو خاص طور پر اجاگر کیا گیاہے، مثلاً وضو، غسل، نجاست کو دور کرنا۔ اسے انسان کی ایک بنیادی اور اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کھانے پینے اور روزہ مرہ کی دیگر ضروریات میں اس کے استعمال کا ذکر کیا ہے۔قرآن مجیدمیں ہے: ’’اس ذات نے تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کر دے‘‘ (الانفال:11)۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو‘‘ (النحل:10)

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا ہے اور پانی کو ہی ان کی حیات و وجود کا سبب بنایا ہے، قرآن مجید میں ہے : ’’(اے انسان) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر زمین میں اس کے چشمے رواں کیے، پھر اس کے ذریعے کھیتی پیدا کرتا ہے جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، پھر وہ (تیار ہوکر) خشک ہو جاتی ہے، پھر (پکنے کے بعد) تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ اسے چورا چورا کر دیتا ہے، بے شک اس میں عقل والوں کیلئے نصیحت ہے‘‘ (الزمر:21)۔ یعنی اللہ تعالیٰ واحد، خالق و مدبر ہے، جو بارش برساتا ہے، زمین کو سیراب کرتا ہے اور اس سے رزق اگاتا ہے۔اس سے معلوم ہواکہ زندگی کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔اورآسمان سے برسنے والا پانی زمین میں مختلف طریقوں سے جذب ہو کر چشموں، کنوؤں اور زیرِ زمین ذخائر کی شکل اختیار کرتا ہے،جس کومختلف ذارئع سے انسانی ضروریات کیلئے اورزراعت وغیرہ کیلئے نکالنا پڑتا ہے۔ انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ پانی کو ضائع نہ کرے، بلکہ اسے امانت سمجھ کر استعمال کرے۔

پانی کی اقسام

پاک پانی کی چھ اقسام ہیں:(1)برسات کا پانی، (2) سمندرکا پانی، (3)ندی نالوں کاپانی، (4)کنویں کا پانی، (5)چشمے کاپانی،(6)برف اور اولوں کاپانی وغیرہ۔

پانی کے استعمال سے متعلق شرعی احکام

حکمِ شرعی کے اعتبارسے پانی کو استعمال کرنے کے اعتبارسے پانچ اقسام ہیں:(1)فرض و واجب: نماز کیلئے وضو اور جنابت کا غسل کرنا، (2) سنت: جمعہ، عیدین، عرفہ اوراحرام کاغسل، (3) مستحب: وضو پر وضوکرنا، (4) مکروہ تنزیہی:پانی میں اسراف کرنا، (5) مکروہ تحریمی:شرعی حاجت سے زیادہ پانی کااستعمال کرنا۔

پانی میں اسراف کی صورتیں اورشرعی حکم

پانی کے استعمال کی ضرورت جہاں ہو یا جتنی مقدار میں ہو، اس سے زائد کا استعمال کرنا فضول خرچی اور اسراف میں داخل ہے، جو کہ بعض اوقات حرام اور بعض اوقات مکروہ ہوتا ہے۔ ذیل میں اسراف کے متعلق احکام و مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔

اسراف کی تعریف

’’الاسراف‘‘ کا لغوی معنی حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے جبکہ شرعی اصطلاح میں: یہ حد سے تجاوز کرنا ہے یعنی وہ اسراف جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ خرچ اللہ کی اطاعت کے علاوہ کسی اور جگہ کیا جائے، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ(موسوعہ فقہیہ (4/176)۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’اسراف یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کے مناسب مصرف میں ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے (ردالمحتار10/494)۔

علامہ احمدبن محمدطحطاوی لکھتے ہیں: ’’بیشک اسراف یہ ہے کہ کسی چیز(پانی) کو شرعی ضرورت سے بڑھ کر استعمال کیا جائے، چاہے وہ دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 53)

قرآن مجیدمیں اسراف کی ممانعت ان الفاظ میں آئی ہے: ’’کھاؤ ،پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘(سورۃ الاعراف:31)، دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ’’بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘(بنی اسرائیل:27)

پانی کے استعمال میں نبوی احتیاط

نبی مکرم غسل اوروضو کیلئے ایک مخصوص مقدار میں پانی استعمال کرتے تھے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک صاع پانی سے غسل اور مد سے وضو کر لیتے تھے ( سنن ابی داؤد:92) ۔صاع پیمائش کا ایک برتن ہے فی زمانہ پیمائش کے اعتبار سے اس برتن میں دو کلو سے اڑھائی کلو تک سامان آتا ہے۔ ایسے ہی اس برتن میں پانی ڈالیں تو وہ بھی اتنی مقدار میں یا اس سے کچھ زائد آئے گا۔ مد صاع کا چوتھائی ہوتا ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ تقریبا اڑھائی سے لے کر تقریبا چار لیٹر تک پانی سے غسل اور آدھے لیٹر سے لے کر ایک یا ڈیڑھ لیٹر تک پانی سے وضوکیاکرتے تھے۔ یہ غسل و وضو میں کم تر مسنون مقدار ہے۔ اور حسب ضرورت اس مقدار میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آپﷺ کے عمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وضو وغسل میں بھی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہ کیا جائے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ  حضرت سعدؓ  وضو کر رہے تھے رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا :اے سعدؓ! یہ اسراف کیوں ہے؟ عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی کیوں نہ ہو (ابن ماجہ:425)۔ جب وضو میں پانی مقررہ مقدار سے زیادہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تو دیگر امور میں بدرجہ اولی اس کی اجازت نہیں۔ 

وضومیں پانی کااسراف اور اقوال فقہاء

وضومیں ضرورت سے زائدپانی استعمال کرنامکروہ ہے۔رہا تین بھرے ہوئے چلو (پانی) سے زیادہ استعمال کرنا تو جمہور (علماء ) کے نزدیک یہ مکروہ ہے، کیونکہ یہ پانی میں اسراف شمار ہوتا ہے۔(الموسوعہ الفقہیہ4/178)

علامہ طحطاوی لکھتے ہیں:میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو پانی کے بچے ہوئے حصے میں اسراف کرتے ہیں، اور ’’الدر‘‘میں ہے: اسراف مکروہِ تحریمی ہے، چاہے وہ دریا کا پانی ہو یا کسی کی ملکیت ہو (طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص45)۔

غسل میں اسراف اوراقوال فقہاء

غسل کی سنتوں میں سے ہے کہ پورے جسم پر تین مرتبہ مکمل پانی بہایا جائے، اور اس سے زیادہ کرنا مکروہ اسراف شمار ہوتا ہے۔ (الموسوعہ الفقہیہ،8/180)

شیخ خلیل سہارنپوری لکھتے ہیں: ’’امت کا اس بات پر اجماع (اتفاق) ہے کہ طہارت میں اسراف مکروہ ہے، چاہے وہ وضو ہو، غسل ہو یا نجاست سے پاکی حاصل کرنا ، اگرچہ وہ جاری دریا کے کنارے پر ہی کیوں نہ ہو۔(بذل المجہود،ج1،ص61)۔

پانی میں اسراف کی صورتیں

 پانی میں اسراف کی صورتیں حسب ذیل ہیں: (1)وضو میں دھوئے جانے والے اعضاء کو تین بار سے زائد دھونا۔ (2)غسل واجب میں بدن کو تین بار سے زائد دھونا۔ (3)پانی کی ٹینکی بھر جانے کے بعد بھی موٹر کو چالو رکھنا۔ (4)نل کو کھلا ہوا چھوڑ کر وضو یا غسل کرنا۔ (5)بیت الخلاء کی صفائی کیلئے فلش کو دبا ہوا چھوڑ دینا۔ (6)جانوروں کے نہلانے میں زیادہ پانی کا استعمال کرنا۔ (7)کپڑے اور برتن وغیرہ دھونے میں ضرورت سے زیادہ پانی کا استعمال کرنا۔ (8)کھیت یا باغ کو سیراب کرتے وقت ضرورت سے زائد پانی کا استعمال کرنا۔ (9)چوراہوں پر لگے ہوئے فواروں سے بھی پانی کاضیاع ہوتا ہے۔ (10)سوئمنگ پول میں پانی کابے دریغ استعمال کرنا۔

پانی کوآلودہ ہونے سے بچانا

پانی کوبلاضرورت آلودہ کرناشریعت میں ناپسندیدہ امر ہے۔اس بارے میں چنداحادیث حسب ذیل ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی رکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، جو بہتا نہ ہو، پھر اسی میں غسل کرے‘‘(صحیح بخاری:239)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو، تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ کہاں رہا‘‘(صحیح مسلم: 278)۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مرفوع روایت ہے: ’’تین چیزوں سے بچو جو لعنت کا باعث بنتی ہیں: (1)پانی کے راستوں میں قضائے حاجت کرنا، (2) راستے کے درمیان،(3) سایہ دار جگہ میں(ابو داؤد: 26)۔ مندرجہ بالاقرآنی آیات ،احادیث مبارکہ اوراقوال ائمہ سے ثابت ہواکہ ہرمسلمان کابنیادی فریضہ کہ وہ آبی وسائل کاذمہ دارانہ استعمال کرے اوراسے ضائع ہونے سے بچائے۔

تجاویز

بارش کے پانی کا ذخیرہ:گھروں، مدارس اور مساجد میں بارش کے پانی کو جمع کر کے پودوں، وضو یا صفائی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پانی کے اسراف سے بچاؤ:گھریلو، زرعی اور صنعتی سطح پر پانی کے استعمال میں اعتدال برتا جائے۔وضو، غسل،  اور دیگر کاموں میں ضرورت سے زائد پانی کا استعمال نہ کیا جائے۔گاڑی یا فرش بار بار دھونا، فوارے چلانا فضول خرچی ہے۔

 جدید آبپاشی کے نظام کا استعمال:فصلوں کیلئے ’’اریگیشن ڈرپ‘‘ اور’’ سپرنکل سسٹم‘‘جیسے جدید طریقے اپنائے جائیں تاکہ کم پانی میں زیادہ فائدہ حاصل ہو۔

 درخت لگانا اور جنگلات کا تحفظ:درخت بارش کے نظام کو بہتر بناتے ہیں، زمین کی نمی برقرار رکھتے ہیں اور خشک سالی سے بچاتے ہیں،اس لیے درخت لگانے بھی چاہیے اوران کی حفاظت بھی کرنی چاہیے۔

دعاؤں اور استغفار کا اہتمام:استغفار اور صدقات سے بارش کی رحمت نازل ہوتی ہے،اس لیے استغفاربھی زیادہ کرناچاہیے اور بارشوں کیلئے دعاکرنی چاہیے۔

آبی ذخائر کی تعمیر و حفاظت:ڈیم، تالاب اور چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں تاکہ پانی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

عوامی آگاہی مہمات:مساجد، مدارس، جامعات، کالجوں، سکولوں، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے پانی کی اہمیت اور بچاؤ سے متعلق شعور دیا جائے۔

حکومتی پالیسی سازی:حکومت پانی کے تحفظ کو ترجیح دے اور پانی ضائع کرنے پر پابندیاں عائد کرے۔

آلودگی سے تحفظ:ندی، نالے اور چشمے کو فضلے یا کیمیکل سے آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔