یادرفتگاں: آج 14ویں برسی اے حمید اور یادوں کے قافلے

تحریر : محمد ارشد لئیق


انہوں نے اپنی تحریروں کیلئے تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات کو بھی خوبصورت انداز میں تخلیقات میں سمویا

تعارف

اے حمید (عبدالحمید) کا شمار اردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں ہوتا ہے۔وہ 25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ مقامی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور پرائیویٹ طور پر ایف اے پاس کرکے ریڈیو پاکستان سے بطوراسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئے۔ جہاں ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر  اور ریڈیو ڈرامے لکھنا شامل تھا۔ 1980ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے  اور وائس آف امریکہ میں پروڈیوسر کی نوکری اختیار کی لیکن جلد ہی وہاں کی زندگی کے ہنگاموں سے اکتا کر پاکستان  لوٹ آئے اور زندگی کے آخری لمحوں تک فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔حکومت نے انہیں ’’تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔

 ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی اسی نام یعنی ’’منزل منزل ‘‘ کے نام سے شائع ہوا جسے نوجوان پرھنے والوں میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔نوے کی دہائی میں انہوں نے بچوں کیلئے ایک سلسلہ وار ڈرامہ’’عینک والاجن‘‘ لکھا۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ابھی سیزن ختم نہ ہوتا کہ دوسرے کی ڈیمانڈ آنے لگتی اور لوگ بے تابی سے اس کا انتظار کرتے۔ انہوں نے دو سو سے زیادہ افسانے، ناول اور ڈرامے لکھے۔انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں بھی یادگار چھوڑیں۔ ابتدائی کہانیوں سے ہی ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا تھا۔اے حمید نے اپنی کہانیوں میں رومانیت اور ماضی پرستی کی ایسی جادوئی فضا قائم کی کہ جب تک وہ لکھتے رہے ان کے قارئین دیوانہ واران کو پڑھتے رہے۔29 اپریل 2011ء کو ان کا انتقال لاہور میں ہوا۔

لاہور کی یادیں اور اے حمید کا سدا بہار قلم، کون ہے جو اس کے سحر سے بچ سکے۔ وہ خود کہتے تھے کہ ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آ جاتی ہیں، جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو، کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں‘‘۔

اکمل علیمی، اے حمید سے متعلق اپنی یادوں میں لکھتے ہیں:’’ امرتسر سے وابستگی کے دوران ہی اے حمید کو لاہور سے عشق ہو گیا تھا اور ان کی مشہور ہیروئن واجدہ اسی شہر کی رہنے والی تھی اور جس نے مصنف سے التجا کی تھی کہ ’’ حمید صاحب میری محبت کی کہانی مت لکھنا میں بدنام ہو جائوں گی‘‘۔ اس انشایئے میں وہ ایک رومان پرست اہل قلم کی تعریف کرتے ہیں۔ مضمون سے ایک اقتباس: ’’ان درختوں کا اصل نام مجھے معلوم نہیں مگر ہم انہیں چڑی پھول والے درخت کہتے تھے۔ یہ درخت لاہور کی کسی دوسری سڑک پر بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ بہار کے آخری دنوں میں ان پھولوں کی پنکھڑیاں گرنے لگتیں اور ڈیوس روڈ کے خاموش اور دور تک خالی خالی فٹ پاتھوں پر ان پھولوں کا سرخ قالین بچھ جاتا، ہم نے کبھی ان دنوں میں فٹ پاتھ پر چلنے کی بے ادبی نہیں کی بلکہ فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک پر چلتے اور پھولوں کے زندہ قالین کا نظارہ کرتے چلے جاتے‘‘۔

پاکستان میں لکھنے کو ذریعہ معاش بنانا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ منٹو اور اے حمید کے بعد انتظار حسین اردو فکشن کی آبرو اور ادب کے نوبیل پرائز کے حقدار ہیں مگر ان کی کتاب بھی دو ہزار سے زیادہ تعداد میں نہیں چھپتی چنانچہ بیشتر اہل قلم نے ماہوار معاوضہ دینے والے اداروں میں ملازمت اختیار کی۔ حفیظ جالندھری، تیغ الہ آبادی (مصطفی زیدی)، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، ن م راشد، مسعود مفتی، مختار مسعود، عبدالحمید عدم، جمیل الدین عالی، ممتاز مفتی، ابن انشا اور دوسروں نے جدید تعلیم کے بل پر سرکاری ملازمتیں حاصل کیں۔ فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفی تبسم، قیوم نظر، انجم رومانی، عابد علی عابد، شہرت بخاری اور دوسرے دانش ور کالجوں میں پڑھانے لگے۔ قتیل شفائی اور تنویر نقوی نے فلمی دنیا کا رخ کیا۔ احسان دانش نے کتابوں کی دکان کھولی۔ استاد دامن، حبیب جالب اور ساغر صدیقی کچھ نہ کر پائے مگر شاعری کے کوچے میں نام کمایا۔

 ادب اور صحافت میں ایک مضبوط رشتے کی روایت آزادی کے حصول سے پہلے سے چلی آ رہی تھی جس نے مولانا ظفر علی خان، عبدالمجید سالک، غلام رسو ل مہر، چراغ حسن حسرت اور مرتضی احمد خان میکش جیسے چاند تارے پیدا کئے تھے۔ اس روایت کو سعادت حسن منٹو، رئیس امروہوی، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین نے آگے بڑھایا اور آخر میں شوکت تھانوی، مرزا ادیب، ناصر کاظمی، اشفاق احمد، ابوالحسن نغمی اور اے حمید ریڈیو پاکستان میں پائے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یار لوگوں نے اے حمید کو اسٹاف آرٹسٹ یونین کا صدر چن لیا تھا۔ ریڈیو کا اسٹاف آرٹسٹ ٹھیکے پر کام کرتا تھا اور اس کی تنخواہ بالعموم پروڈیوسر سے بھی کم ہوتی تھی۔

 انجینئر راشد اشرف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’وائس آف امریکہ سے مستقل وابستگی کے بعد میں نے اے حمید کو واشنگٹن لانے کی کوشش کی جو1980ء کے وسط میں کامیاب ہوئی اور دو سال کے کانٹریکٹ پر امریکہ آئے۔ میری رہائش ڈیل سٹی ورجینیا میں تھی۔ وہ گھر کے ڈیک پر سیب اور آلوچے کے درختوں کی شاخوں کو جھکے پاکر بے حد خوش ہوئے۔ گویا ان کے دیرینہ رومانوی خوابوں کی تعبیر سامنے تھی۔ شام ہونے کے بعد ہم اس ڈیک پر بیٹھ کر روشنی کرتے اور لاہور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔ چند روز میں وہ اداس ہو گئے اور یہ کہہ کر مجھے حیران و پریشان کردیا کہ میں وطن واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ حفیظہ اور بچے یاد آنے لگے ہیں۔ چند ماہ میں کنبہ بھی ان سے آ ملا اور وہ ولسن بلیوارڈ پر کرائے کے ایک اپارٹمنٹ میں رہنے لگے۔ اب ان کی زندگی گھر اور دفتر تک محدود تھی۔ 

 راشد اشرف کہتے ہیں ’’واشنگٹن میں ہمارا ایک مشغلہ People watchingتھا۔ سن پچاس کے عشرے کے اواخر میں جب میں روزنامہ امروز کے ادارتی انتظامات کیلئے لاہور سے ملتان گیا تو مجھے یہ فن مختار مسعود نے سکھایا تھا جو وہاں ڈپٹی کمشنر تھے اور میں صبح کی سیر ان کے ساتھ کرتا تھا۔ اے حمید نے اس میں اجنبیوں میں جانے پہچانے چہرے تلاش کرنے کا اضافہ کیا۔ ایک روز ہم ایک پرہجوم سڑک پرجا رہے تھے کہ انہوں نے میرے کان میں کہا، وہ دیکھو کشور ناہید جا رہی ہیں۔ شاید وہ لاہور میں چھوڑے ہوئے دوستوں کی کمی محسوس کرتے تھے۔وائس آف امریکہ کے ساتھ معاہدے کی میعاد ختم ہونے پر وہ ہنسی خوشی وطن واپس چلے گئے۔ چند سال کے بعد میں لاہور گیا تو وہ سکون سے بولے، امریکہ میں رہ کر میں نے آٹھ گھنٹے روزانہ کام کرنا سیکھا، واقعی وہ روزانہ آٹھ گھنٹے لکھتے تھے اور اپنی تحریروں کے معاوضے پر اپنے گھر کا خرچ چلاتے تھے۔

اے حمید نے کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کیلئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنیوالے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا اور انھیں اپنے خوبصورت انداز میں اپنی تخلیقات میں سمویا۔ آج ان کی 14 ویں برسی ہے۔ ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60ء کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

ادبی سفر کیسے شروع کیا!

قیامِ پاکستان کے بعد اے حمید نے اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا، ان ہی کی زبانی جانیے۔

’’پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آجاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔

 میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ، کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن چاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی‘‘۔

اے حمید کی تصانیف

اے حمیدکی ساری کتابوں کی تعداد  دوسو سے زیادہ ہے۔ ان کی مقبول عام کتابوں میں پازیب،پھر بہار آئی، شہکار، مرزا غالب رائل  پارک میں ،تتلی، بہرام، جہنم کے پجاری، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، پہلی محبت کے آنسو، اہرام کے دیوتا، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو، بلیدان، چاند چہرے اور گلستان ادب کی سنہری یادیں، خفیہ مشن شامل ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔