بچوں میں ڈائریا

تحریر : ڈاکٹر فروہ


بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

 ان میں پانی بہت کم ہوتا ہے لیکن اگر کوئی بچہ دن بھر میں دو تین پاخانے کرے مگر ان میں پانی زیادہ ہو تو یہ ایک خلاف معمول بات ہو گی۔ اس لیے ماں باپ کو بچے کے پاخانے کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیے۔ اگر بچہ پتلے پاخانے کرے تو چاہے ان کی تعداد زیادہ نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے بدن کے پانی میں جو کمی ہو جاتی ہے وہ تشویش ناک بات ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ 

اگر بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے تو دست کوئی مشکل معاملہ نہیں بن پاتے۔ ماں کو دودھ پلاتے ہوئے اپنی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کا معاملہ نسبتاً زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہاں بوتل اور دودھ دونوں کو جراثیم سے پاک رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچے کے رکھوالے کے ہاتھ اور وہ برتن جن میں دودھ تیار کیا جاتا ہے صاف کرنا چاہیے۔ بوتل کو ہر بار صاف کرنے کے بعد تقریباً پندرہ منٹ تک ابالنا چاہیے۔ نپل کو دو منٹ تک ابالنا چاہیے۔ ماں اپنے ہاتھ اچھی طرح دھوئے۔ اگر بچہ گائے وغیرہ کا دودھ پیتا ہے تو اسے بچے کو پلانے سے پہلے ابال لینا چاہیے۔ دودھ کو بار بار ابالنے کی ضرورت نہیں۔ 

ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے باوجود بچوں کو ڈائریا ہو سکتا ہے کیونکہ بعض قسم کے جراثیم کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ڈائریا وہی خطرناک ہوتا ہے جس سے بچے کے جسم کا پانی اور نمکیات بڑی مقدار میں خارج ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی غذا میں پانی ملا کر دیا جاتا ہے۔ 

ویسے تو یہ ایک ٹیکنیکل قسم کی بات ہے لیکن اگر بچے کو بہت زیادہ پانی جیسے دست آ رہے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ اس کے جسم کا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ جب بچے کو اس طرح کے دست آتے ہیں تو اس کی پیاس بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ روتا ہے اور جیسے ہی اسے پانی دیا جاتا ہے وہ خوش ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے او آر ایس کا مشورہ دیا جاتا۔ اگر ایسی حالت میں آپ اسے پانی دینا بند کردیں تو وہ  چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرے گا۔ اس کی آنکھیں اندر دھنسنے لگیں گی لیکن جیسے ہی اسے پانی دیا جائے گا وہ اسے غٹاٹٹ پی جائے گا۔

 بدن سے پانی کے ضائع ہو جانے کے آثار اس وقت زیادہ شدت سے ظاہر ہوتے ہیں جب بچے کو پانی پینے کو نہ ملے۔ ایسی صورت میں اس کا تالو بیٹھنے لگتا ہے۔ جلد سخت ، زبان خشک ہو جاتی ہے اور اس پر غشی چھانے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے اور بروقت طبی امداد پہنچائی جائے تاکہ اس کی حالت کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔