اللہ کی رحمت سے ناامیدومایوس مت ہوں!

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


اللہ عزوجل کی رحمت بہت بڑی وسیع ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید و مایوس مت ہوں، کیونکہ اس ذات کی رحمت اس کے غصہ پر حا وی ہے،اپنے گناہوں پر نادم ہونا ہمارا کام ہے اور اپنی رحمت کے دریا بہا دینا رب العالمین کا کام ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں کے دروازوں پر آ کر سوال کر تی ہے کہ رب کی رحمت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے روٹھے ہو ئے رب کو منالیں۔ وہ ذات معاف کرنے والی ہے، اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: ’’اے نبیؐ! آپ کہہ دیجئے، اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سورۃ الزمر: 53)۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کسی بھی طرح انسان کو خدا سے دور کر دے، جب ایک بار وہ انسان کو خدا کے راستے سے بھٹکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اگلی چال یہ ہوتی ہے کہ انسان کو خدا کی رحمت سے مایوس کر دے۔ اس طرح اسے ہمیشہ رب کی نافرمانی والے راستے پر چلاتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ جس چیز کی امید دلائی ہے وہ اس کی رحمت ہی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارک میں انسانوں کو مختلف طریقوں میں سب سے زیادہ خدا کی رحمت کی امید دلائی گئی ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے اس نے اپنے آپ کو متصف کہا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کائنات کی ہر چیزپر حاوی ہے۔

پوری کائنات رحمت الٰہی کی مظہر ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ’’میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے‘‘ (الاعراف: 156) اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا (الانبیاء ،107)۔ اسی طرح شرعی احکامات میں بھی رحمت کی صفت کو نمایاں حیثیت دی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار ہیں، وہ کیسے نماز کیلئے مسجد جائیں اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں! یاد رہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور اس طرح کے خیالات کے ذریعے شیطان ہمیں اللہ کے قریب ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس لیے ان خیالات کو جھٹک کر فوراً اللہ کے حضور سجدہ کر لینا چاہیے۔

 قرآن مجید میں بڑے سے بڑے گناہ گار کو بھی اس کی رحمت کی امید دلا کر خدا کے قریب ہوجانے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرنے کی طرف بلایا گیاہے۔ خدا کی طرف لوٹ آنے پر پچھلے تمام گناہ معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے نبی ؐآ!پ کہہ دیجیے اے میرے وہ بندوجو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الزمر، 53)۔ اس آیت مبارکہ کو قرآنِ مجید کی امید بھری آیت کہا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اپنا بندہ کہا ہے اور چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، صرف ایک دو گناہ کرنے والا نہیں بلکہ گناہوں میں حد پار کر دینے والے کو بھی اس آیت میں مخاطب کیا گیا ہے۔ سب کو یہ امید دلائی کہ تم اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک وہ تمام گناہ بخش دے گا۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں جو اس کے عرش کے پاس رکھی ہوئی ہے اپنے بارے میں لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (بخاری، 7404) یعنی اللہ تعالیٰ کو انسانوں کو سزا دے کر نہیں بلکہ انہیں معاف کرکے خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنی رحمت کی کتنی امید دلاتے ہیں۔

 ایک حدیث مبارک میں اللہ کے رسول ﷺنے اس کو واضح کیا ہے۔ حضرت عمرؓ یہ حدیث روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت ادھر سے ادھر دوڑتی پھر رہی تھی۔ جیسے ہی اسے ایک بچہ نظر آیا اس نے اس بچے کو پکڑ کے اپنے سینے سے لگالیا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟صحابہ کرام ؓ نے عرض کی نہیں۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عورت جتنی اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے (صحیح بخاری: 5999)۔ یہ حدیث رب کے نافرمانوں کو اس کی رحمت کی امید دلاتی ہے اور انہیں رب کی طرف لوٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔ 

اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے (وہ حدیث جس میں رسول اللہﷺ رب سے روایت کرتے ہیں) جسے حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔چاہے تیرے اعمال جیسے بھی ہوں مجھے تیرے گناہوں کی کوئی پروا نہیں، اے ابن آدم! تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے تو میں تب بھی تیری مغفرت کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو (جامع  ترمذی: 3540)۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان رکھنا واجب ہے۔

 بندہ رب کے بارے میں جیسا گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح اس سے برتاؤ کرے گا۔ حدیث قدسی ہے ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہوتا ہوں (صحیح بخاری:  7505)۔ ہمیں اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمت سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کر دے۔ 

یہ رب کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہوں پر فوراً انسان کی پکڑ نہیں کرتا۔’’اگر اللہ لوگوں کے گناہوں پر ان کی پکڑ شروع کردے تو زمین میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے لیکن وہ انسانوں کو ڈھیل دیتا ہے‘‘(سورہ فاطر: 45)۔اللہ عزوجل کا ہم سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ ہم خدا کی یہ صفت اپنے اندر پیدا کریں اور اس کی مخلوق پر رحم کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ 

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ تعالیٰ) مہربان ہو گا۔ اس لیے جو زمین پر ہیں ان پر رحم کرو تم پر وہ ذات رحم کرے گی جو آسمان میں ہے‘‘(شعب الایمان، 10537)۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’رحم کرو، تم پر بھی رحم ہو گا، اور بخش دو تمہیں بھی بخش دیا جائے گا (مسند احمد)۔حضرت جریرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو لوگوں پر رحم نہیں کرے گا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرے گا‘‘(مسند احمد)۔

قرآن و حدیث میں رحمت ِالٰہی کا حقدار بننے کیلئے ہدایات دی گئی ہیں جو بھی ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرے گا، خدا اس کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا، چند مستحقین رحمت درج ذیل ہیں۔

’’اللہ پر ایمان رکھنے والے (النساء: 175)، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے والے (آل عمران: 132)، قرآن پر عمل کرنے والے (الانعام: 155)، قرآن مجید کی تلاوت کو بغور سننے والے (الاعراف: 204) توبہ و استغفار کرنے والے (المائدہ: 39)، تقویٰ اختیار کرنے والے (الانعام: 155)، صبر کرنے والے(النحل: 110)، احسان کرنے والے (الاعراف:56)، صلح کرانے والے (الحجرات:10)، راہِ خدا میں خرچ کرنے والے (التوبہ: 99)، منکر سے روکنے والے (التوبہ: 17)، درگزر کرنے والے (التغابن: 14)، نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے والے (صحیح مسلم: 408)۔حضورﷺ سے سوال کیا گیا’’کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟‘‘ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف رہنا اور یہی سب سے بڑا گناہ ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق اور اپنی رحمت کاملہ نصیب فرمائے۔آمین

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔