حب الوطنی:ایک دینی و اخلاقی فریضہ
’’تو (مکہ)کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا‘‘(جامع ترمذی) ’’جب نبی اکرمﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اُسے ایڑ لگاتے‘‘
حُب الوطنی صرف ایک جذبہ یا نعرہ نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی اخلاقی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام ہمیں نہ صرف والدین، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے محبت کا درس دیتا ہے بلکہ اپنے وطن، اپنے علاقے اور اپنی سرزمین سے وفاداری اور محبت کو بھی دین کا حصہ قرار دیتا ہے۔وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت ویگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرمﷺ کی احادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حبّ الوطنی کا ثبوت ہے۔ کسی چیز کے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر کسی مرغوب جگہ یاچیز کے ساتھ محبت والہانہ ہو تو فوقیات و ترجیحات اور ہو جاتی ہیں۔
ہر انسان طبعی طور پر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ رکھتا ہے۔ اسلام میں کسی مقام پر بھی وطن سے محبت کی نفی کے متعلق احکامات وارد نہیں ہوئے البتہ اس کے بر عکس قرآن و سنت میں واضح طور پر ایسی نصوص ملتی ہیں جو صریحًا وطن کی محبت پر دلالت کر تی ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ کے اقوال و اَفعال مبارکہ میں واضح طور پر وطن سے محبت کی نظائر و امثلہ ملتی ہیں۔ مستزاد یہ ہے کہ علماء و فقہاء نے ایسی نظائر و امثلہ سے وطن کے ساتھ محبت کو شرعًا جائز قرار دیا ہے۔
وطن سے محبت ایک فطری امر ہے ، بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر راہنمائی ملتی ہے، ہجرت کرتے وقت رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا‘‘(جامع ترمذی : 3926) ۔ اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔
اس حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر اپنے مولد و مسکن یعنی مکۃ المکرمہ کے ساتھ محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرمﷺ کا اپنے وطن مالوف مدینہ منورہ میں داخل ہونے کیلئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرمﷺ وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کیلئے جلدی فرماتے۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں: ’’جب حضور نبی اکرمﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اْسے ایڑ لگاتے‘‘۔اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرمﷺ اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کیلئے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘(فتح الباری، 3: 621)
اسی طرح ذخیرہ احادیث میں متعدد احادیث مبارکہ پائی جاتی ہیں جو حضور نبی اکرمﷺ کی مدینہ المنورہ کے ساتھ محبت کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرمﷺ اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے: ’’اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کیلئے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کیلئے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما) ‘‘(صحیح مسلم: 1373)۔
وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے مدینہ المنورہ کی مبارک مٹی کو بیماروں کیلئے رب تعالیٰ کے حکم سے شفاء قرار دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: ’’اللہ کے نام سے شروع، ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کے تھوک کے ساتھ ہمارے بیمار کو شفا دیتی ہے، ہمارے رب کے حکم سے ‘‘(صحیح بخاری: 5413)۔
وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے اور سخت تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرلو اور اپنے گھروں سے نکل جائو، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدودے چند افراد کے ‘‘(سورۃ النساء)۔ ایک اورمقام پرو طن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو‘‘(سورۃ الممتحنہ)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کیلئے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض گزار ہوئے ، جسے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :’’ اور جب حضرت ابراہیمؑ نے کہا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنادے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘‘(سورۃ البقرہ)۔
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعا منقول ہے کہ ’’اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کیلئے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کیلئے وہی بلکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں‘‘(مسلم شریف)۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، اس کے ایک ایک ذرے سے محبت رکھتے ہیں، اپنے ملک کی ایک انچ زمین کسی دوسرے ملک کو دینا گوارا نہیں کرتے۔ اسے چھوڑ کر کسی دوسرے پڑوسی ملک میں رہائش پذیر ہونے کی آرزو نہیں رکھتے۔اسی سرزمین پر آنکھیں کھولی ہیں اور ایک دن اسی سرزمین میں پیوند خاک ہوجائیں گے۔ انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے،اس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے وطن کا دفاع کرنا، اس کی خدمت کرنا، اس میں عدل و انصاف قائم رکھنا، اور اس کی فلاح و بہبود میں حصہ لینا عین عبادت ہے۔ وطن میں فساد پھیلانا، امن کو برباد کرنا، یا ریاستی املاک کو نقصان پہنچانا اسلام کے سراسر خلاف ہے۔حب الوطنی نہ صرف ایک انسانی فطرت ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کا بھی حصہ ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وطن سے محبت، اس کے دفاع میں قربانیاں دینا، اور اس کی ترقی میں کردار ادا کرنا ہر مسلمان کا اخلاقی، دینی اور قومی فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس پیغام کو اپنی نسلوں تک پہنچائیں تاکہ ایک پْرامن، مضبوط اور خوشحال اسلامی معاشرہ قائم ہو سکے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہماری فوج نے وطنِ عزیز کی حفاظت کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ جنگوں میں ہماری مسلح افواج نے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر مادرِ وطن کی عزت و حرمت کا دفاع کیا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ ہو یا قدرتی آفات جیسے زلزلے اور سیلاب، فوج نے ہر موقع پر عوام کی خدمت کی اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر قوم کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔فوج سے محبت دراصل ان سپاہیوں سے محبت ہے جو دن رات، موسم کی شدتوں سے بے پروا ہو کر سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں۔ یہ محبت ایک جذبہِ وفاداری ہے، ایک شکریہ ہے ان ماؤں، بہنوں اور بیویوں کے لیے جن کے پیارے وطن کے لیے جان نچھاور کر دیتے ہیں۔ یہ محبت قوم کی وحدت کو مضبوط کرتی ہے اور نوجوان نسل میں حب الوطنی کا شعور بیدار کرتی ہے۔