یادرفتگاں: 21ویں برسی مجروح سلطان پوری
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا جدید اور قدیم کا امتزاج ان کی غزل میں نمایاں پہلو بن کر سامنے آیامجروح نے اپنے پیشروئوں کا اثر ذہنی طورپر قبول تو کیا لیکن شاعری کے معاملے میں محتاط رہے کہ مستند شعراء سے استفادہ کہیں ان کی اپنی انفرادیت پر اثر انداز نہ ہو
مجروح کی شاعری روایت کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ان کے شعری مزاج کی تشکیل میں کلاسیکی اردو اور فارسی شاعری کے علاوہ،20ویں صدی کے غزل گو شعراء خصوصاً حسرت، اصغر اور جگر کے تاثرات بھی کار فرما رہے ہیں۔ مجروح، جگر سے زیادہ قریب رہے ہیں اور ان کا کم از کم ایک وصف کسی نہ کسی شکل میں مجروح سے یہاں نمایاں ہوتا ہے۔ سرمستی اور والہانہ پن، اس کے علاوہ شاید مجروح اور جگر میں کوئی چیز مشترک نہیں۔
اس سلسلے میں پروفیسر وارث کرمانی کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں: ’’حسرت، فانی، اصغر اور جگر کی غزل اپنی سرشت میں حسن و عشق کی رومانی کیفیت رکھتی ہے۔ اگرچہ ان میں کسی کا جھکائو فلسفیانہ حزن و ملال کی طرف، کسی کا عرفان و تصوف کی طرف، کسی کا سرمستی اور سرشاری کی طرف تھا، مگر سرشت ایک ہی تھی اور یہی سرشت زمانے کی مرکزی خوبی قرار پائی۔ مجروح نے اپنی شاعری کا آغاز اسی رنگ میں کیا اور اصغر اور جگر والے عاشقانہ انداز سے اپنی غزلوں میں جمالیاتی کیفیت پیدا کی جو اس صدی کے چوتھی دہائی میں تعلیم یافتہ نوجوان اور طالب علموں میں بہت مقبول ہوئی۔
وہ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت رہے کہ انہیں جگر جیسے معتبر غزل گو شاعر کی سرپرستی اور رفاقت حاصل رہی جو 20ویں صدی میں غزل کو نکھار، سنوار کر ایک منزل کی طرف لے جا رہے تھے۔ لیکن اس سرپرستی اور رفاقت نے ان کی شاعری کو براہ راست متاثر نہیں کیا۔ انہیں جگر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا لیکن دونوں کے درمیان بہ اعتبار فن استادی شاگردی کا رشتہ کبھی قائم نہ ہوا۔ بقول مجروح: ’’ جگر صاحب نے میری اصلاح کی ہے۔ میرے مصرعوں کی نہیں، انہیں میں نے ہمیشہ اپنا معنوی باپ سمجھا ہے‘‘۔
مجروح نے اپنے پیش روئوں کا اثر ذہنی طورپر قبول تو کیا لیکن شاعری کے معاملے میں محتاط رہے کہ مستند شعراء سے استفادہ کہیں ان کی اپنی انفرادیت پر اثر انداز نہ ہو۔ اس انفرادیت کا احساس مجروح اگر برقرار نہ رکھ پاتے تو عین ممکن تھا کہ وہ جگر اور دوسرے شعراء کی آواز میں آواز ملانے والے شاعر کی مانند وقتی شہرت حاصل کرکے گمنامی کے اندھیروں میں گم بھی ہو گئے ہوتے۔ لیکن اب تک ان کی شہرت کا برقرار رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجروح نے انفرادیت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور ہمیشہ اپنی ایک الگ راہ بنانے کی دھن میں مگن رہے۔ اس لگن اور جستجو نے انہیں زندہ رکھا۔ اپنی انفرادیت کا انہیں خود بھی احساس ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں۔
شاید اسی جداگانہ ڈگر کی تلاش میں مجروح فن کے معاملے میں حددرجہ محتاط رہے جدید اور قدیم کا امتزاج ان کی غزل میں نمایاں پہلو بن کر سامنے آیا لیکن جو شہرت ابتدائی دنوں میں ان کے حصے میں آئی تھی بعد میں اس میں کوئی اضافہ نہ ہو سکا۔ اس ٹھہرائو کی سب سے بڑی وجہ ان کی حد درجہ کم گوئی رہی۔ لیکن اس انتہائی قلیل سرمائے کے باوجود مجروح اپنے آپ سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں اور یہ اعتماد واقعی تعجب خیز ہے۔ مجروح نے جگر کا اثر قبول تو کیا ہے لیکن ایک جدا ڈگر کی تلاش ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی یہی وجہ ہے کہ معتبر غزل گول شعراء کے دور میں مجروح کا شمار اچھے شاعروں میں ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ مجروح نے معتبر شعراء کے کلام سے فیض اٹھایا ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ ان کا شعری اسلوب تمام تر دوسروں سے مستعار ہے۔ ان کا اپنا ایک الگ رنگ ہے اور اس رنگ میں تیکھا پن بھی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس انفرادیت کو بنانے میں انتخاب و امتزاج سے مدد ملی ہے۔ یگانہ کی اکڑ اور بانکپن بھی مجروح کے کلام میں جا بجا دکھائی دیتی ہے۔یہ کیفیات مجروح کی شاعری میں بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ گویا کہ مجروح انہیں شعراء سے اپنے آپ کو قریب محسوس کرتے ہیں جن کے مزاج اور رویے میں کسی نہ کسی حد تک وہی عناصر کار فرما ہیں جو خود ان کے مزاج کا خاصہ ہیں۔ مجروح کے اشعار میں انانیت کی جو رمق ہے اس نے ان کی شاعری میں ایک خاص چمک پیدا کر دی ہے۔
مجروح جب تک اپنی راہ چلتے رہے، نکتہ چینیوں کی نظر میں رہے اور تنقید کے حوالے سے ان کے تذکروں نے بہرحال ان کی اہمیت باقی رکھی لیکن جب اس سفر میں ٹھہرائو آیا تو تنقید نے بھی اپنا زاویہ نگاہ تبدیل کر لیا۔ فراق، جذبی، مخدوم، ساحر ،فیض، مجاز وغیرہ کے عہد تک تو مجروح کی مقبولیت اسی آن بان اور شان کے ساتھ جاری رہی کیونکہ ان شعراء کے یہاں بھی روایت سے استفادے کا رجحان غالب تھا۔ لیکن جدیدیت کی تحریک کے بعد نئے شاعروں کا قافلہ جس طرح شعر و ادب کی دنیا پر اثر انداز ہوا اس نے ادب اور زندگی کے تعلق سے مروجہ رجحانات کو سرے سے ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ نئے زاویہ نگاہ نئے استعارے، نئے کنائے، نئی تشبیہات، نئی لفظیات اور نئے موضوعات نے معنویت کی ایک نئی فضا سے روشناس کرایا۔
اس عہد کے شعرا وقت اور زمانے کی تبدیلیوں کے لحاظ سے اپنے فن پاروں کو بھی خاطر خواہ تبدیلیوں سے آراستہ کر رہے تھے۔ ظاہر ہے وہ شعراء جو روایت کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے تھے ان کی شاعری ان تبدیلیوں کو خوش آمدید نہ کہہ سکی اور وقت کا ظالم نقاد مختلف تقاضوں کے پیش نظر رفتہ رفتہ اپنا زاویہ نگاہ تبدیل کرتا رہا اور پھر تنقید کی جو نئی بوطیقاتیار ہوئی ان میں ایسے اشعار کو حتی الامکان نظر انداز کردیا گیا جو اس زمانے میں سانس لینے کے باوجود موجودہ عہد کی تبدیلیوں کو کسی بھی طرح اپنانے کے قائل نہ تھے۔ ایسے شعراء میں جذبی اور مجروح کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے ۔
مجروح کے ہمعصروں کی فہرست طویل ہے ۔ ان تمام شعراء کے یہاں روایت کی پاسداری کا اہتمام غالب رجحان کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دور کی شاعری میں مجروح کی آواز اپنی نغمگی اور بھرپور تاثر کے ساتھ برقرار رہی۔ یہاں روایت کی پاسداری سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ ان شعراء نے اپنے پیش روئوں کی تقلید کو ہی اہمیت دی بلکہ اپنی انفرادیت اور جداگانہ طبیعت کا احساس ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔ گویا روایت کی توسیع اور اس کا خوبصورت امتزاج الگ الگ شکلوں میں سامنے آیا۔ یعنی ترقی پسند غزل کا دوسرا دور وہ ہے جہاں رومان اور انقلاب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس میں غضب کا خلوص اور چائو پوشیدہ ہے۔ ہم اسے ترقی پسندی کا عمومی رنگ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ بیشتر شاعروں نے اسی روشنی کے ذریعے اپنی محفلوں میں اجالوں کو خوش آمدید کہا ہے ۔
اس سلسلے میں محمد حسن کی رائے معقول لگتی ہے: ’’فیض اور مجروح دونوں کے لب و لہجے اور دونوں کی رمزیت جداگانہ ہے، ایک تخصیص سے تعمیم کی طرف جاتا ہے اور دوسرا تعمیم سے تخصیص کی طرف ایک کے لہجے میں شکوہ ہے تو دوسرے کے ہاں نرمی اور دل بستگی۔ لہٰذا ان دونوں میں تقدم و تاخر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کے لہجے اور دائرہ کمال جداگانہ ہیں‘‘۔لیکن ان دونوں کے لہجے اور دائرہ کمال جداگانہ ہونے کے باوجود کوئی بات تو ضرور مشترک ہے کیونکہ مجروح اور فیض کے کئی اشعار یکسانیت کے جذبے سے معمور دکھائی دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں جن شعرا ء کو بطور نغمہ نگار زیادہ شہرت اور پذیرائی ملی، مجروح سلطان پوری ان میں سے ایک ہیں۔ فلمی نغمات نے مجروح کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا۔1919ء میں پیدا ہونے والے مجروح کا اصل نام اسرار حسین خان تھا۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجروح نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہے۔ بعد میں انھوں نے حکمت کو خیرباد کہہ کر شاعری پر توجہ دی۔وہ اکیس سال قبل 24مئی 2004ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے تاہم ان کے اشعار اور گیتوں کی مقبولیت آ ج بھی قائم ہے۔
غزل
مسرتوں کو یہ اہل ہوس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں ترے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب، کہ ترے گیسوئوں کے سائے میں
خیالِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لئے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
جو دیکھتے مری نظروں پہ بندشوں کے ستم
تو یہ نظارے مری بے بسی پہ رو دیتے
کبھی تو یوں بھی اُمنڈتے سرشکِ غم مجروح
کہ میرے زخم تمنا کے داغ دھو دیتے
منتخب اشعار
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
………………
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
………………
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
………………
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
………………
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
………………
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
………………
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروح
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
………………
ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے
نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے
………………
ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں
………………
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
………………
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
………………