سندھ،مسائل کی دلدل
پاک بھارت جنگ کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے ہیں تو سندھ حکومت کو خیال آیا کہ کچھ کام شروع کر دیا جائے۔ صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں ٹریفک قوانین میں اہم ترامیم کی منظوری دی گئی۔
غیر معیاری رکشوں اور مال بردار گاڑیوں پر جرمانے اور گاڑیوں کی رجسٹریشن وغیرہ کے لیے فیسوں کا نظام وضع کیا گیا۔ کمرشل گاڑیوں کے لیے فٹنس کی سند لینا بھی لازمی ہوگی۔ معیار پر پوری نہ اترنے والی گاڑی سڑک پر چلتی پائی گئی تو 10ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ اگر کوئی بار بار سیاہ شیشوں کے ساتھ قانون توڑتی پائی گئی تو تین لاکھ روپے جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ سب سے اہم بات جو وزیراعلیٰ نے بتائی وہ یہ تھی کہ وفاق نے سندھ حکومت کو نو ارب روپے دیے ہیں، اس رقم سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیلاب متاثرین کے لیے مکانات کی تعمیر کے ساتھ راولپنڈی اور رحیم یار خان میں ایس آئی یو ٹی کی طرز پر دو ہسپتال بنائے جائیں گے۔ انسداد منشیات کی عدالتیں بھی قائم ہوں گی تاکہ اس حوالے سے جمع مقدمات سے نمٹا جاسکے۔
وفاقی وزرا کے وفد نے چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کی، وفد میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر پٹرولیم علی پرویز، وزیر توانائی اویس لغاری اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ شامل تھے۔ ملاقات کے دوران نئے بجٹ کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے مشاورت کا خیرمقدم کیا اور مہنگائی مزید کم کرنے، معاشی اور زرعی ترقی پر گفتگو کی گئی۔ صوبے میں مالی نظم و ضبط بھی بات چیت کا موضوع رہا۔ وفاقی وزرا کے وفد نے گورنر کامران ٹیسوری اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ملاقات ہوئی۔ مجوزہ بجٹ اور کراچی کے مسائل پر بات کی گئی، میڈیا سے مشترکہ گفتگو میں رانا ثنا کا کہنا تھا کہ بجٹ میں عوام کے لیے خوشخبری ہوگی، ملک معاشی بدحالی سے نکل چکا ہے، اتحادیوں کی مشاورت سے بجٹ پیش کیا جائے گا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے وفاقی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور بولے: وزیراعظم نے پاکستان کا سر دنیا میں فخر سے بلند کردیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ حکومت کو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے طویل عرصے سے زیرالتوا کے فور منصوبے پر کام کی رفتار تیز کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے منصوبہ 2026ء کے اختتام تک مکمل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں بھی کراچی میں پانی کی قلت پر بات ہوئی اور وزیر بلدیات سعید غنی نے پانی کی قلت کا اعتراف کیا اور واضح کردیا کہ کے فور مکمل ہوئے بغیر پانی کی قلت ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اسمبلی میں سکھر، حیدرآباد موٹر وے کی تعمیر کیلئے اور گیس لوڈ شیڈنگ کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے کے الیکٹرک کے خلاف عدالتی کمیشن بنانے کے لیے قرارداد پیش کی جسے حکومتی بینچ نے مسترد کردیا۔ ادھر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی زیر صدات سٹی کونسل کے اجلاس میں ٹینکر مافیا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ طے پایا کہ اگلے منگل کو ہونے والے اجلاس میں پانی کے بحران پر سیر حاصل گفتگو کی جائے گی۔ کے ایم سی کی زمین کے الیکٹرک کو فروخت کرنے کی بھی منظوری دی گئی، زمین کا رقبہ پانچ ہزار مربع گز سے زیادہ ہے اور فی گز دولاکھ 75ہزار کے حساب سے فروخت کی جائے گی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے بعد اگر عوام یہ کہیں کہ کہیں پیپلز پارٹی اور کے الیکٹرک میں کوئی گٹھ جوڑ تو نہیں ہے تو کیا سوال غلط ہوگا؟
کے ایم سی میں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ کی قیادت میں پانی کی قلت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی نے شہر پر آبی دہشت گردی مسلط کر رکھی ہے، ٹینکر مافیا کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ سیف الدین نے عیدالاضحی کے بعد بھرپور احتجاجی تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا۔ ہماری معلومات کے مطابق شہر کے بعض علاقے تو ایسے ہیں جو عرصہ دراز سے لائن کے پانی سے محروم ہیں اور شہری عام استعمال کا پانی بھی خریدنے پر مجبور ہیں۔ پینے کے لیے تو تقریباً پورا شہر ہی پانی خریدتا ہے۔ پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ ان دنوں پنجاب کے دورے پر ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے پیپلز پارٹی پر کھل کر تنقید کی اور بولے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ سندھ میں زرداری راج ہے، پنجاب آکر پتا چلا کہ یہاں تو پولیس کا راج ہے۔ پورے صوبے کو پولیس سٹیٹ میں تبدیل کا جاچکا ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو غیرت مند رہنما قرار دیا اور کہا کہ سندھ کے عوام غیرت مند ہیں اور وہ اپنے غیرت مند لیڈر کے ساتھ کھڑے ہیں۔کراچی کی بات کریں تو شہر کو ایک بار پھر ڈاکوؤں نے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں سال یعنی جنوری سے مئی کے جاری مہینے کے دوران پچاس کے قریب شہریوں کو ڈکیتی مزاحمت کے دوران قتل کیا جاچکا ہے۔ گاڑیاں چھیننے اور چوری وغیرہ کی وارداتیں اس کے علاوہ ہیں۔ پولیس اور حکومت پر عوام کی تنقید برُی تو سب کو لگتی ہے لیکن عوام کی حفاظت اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ عوام سوال پوچھتے تو جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اکثر ان سوالوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ شاید کہیں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ عوام سوال کرتے ہیں تو کرتے رہیں، رو پیٹ کر خود ہی چپ ہوجائیں گے ۔ ان کی زندگی میں پہلے بھی تو ہزاروں مسائل ہیں!