فیلڈ مارشل سید عاصم منیر قومی سلامتی سے قومی ترقی تک

تحریر : سلمان غنی


معرکہ ٔ حق آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت پر جو برتری حاصل کی اس کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جارہا ہے۔اس معرکہ میں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی بے مثال اور جرأت مندانہ قیادت پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کی منظوری اور اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔

وہ جنرل ایوب خان کے بعد فوج میں یہ بلند ترین منصب پانے والے دوسرے آرمی چیف  ہیں۔لیکن ایوب خان کے برعکس سید عاصم منیر کی تقرری جمہوری حکومت اور کابینہ کی منظوری سے ہوئی ہے۔اس تقرری پر کسی جانب سے اختلاف رائے سامنے نہیں آیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے۔حکومت کے بقول یہ تقرری اس لیے کی گئی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کی قیادت میں اور ان کی شاندار حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کو بھارت کے خلاف ہر محاذ پر برتری حاصل ہوئی اور ہماری عالمی حیثیت دنیا میں ایک پرامن معاشرے کے طور پر تسلیم کی گئی ہے۔اس طرح خطے کی سیاست میں بھی بھی پاکستان کی حیثیت بڑھی ہے اور بھارت کے مقابلے میں ہمیں سفارتی برتری حاصل ہوئی ہے۔فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنی اس تقرری پر کہا ہے کہ یہ اعزاز اُن کے لیے قوم کی امانت ہے، وہ اپنا یہ اعزاز قوم کے شہدا کے نام کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ قوم کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ بھارت نے خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دنیا میں پیش کیا ہوا تھامگراب اس کا سیاسی غرور ٹوٹ چکا ہے۔ لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے ہر شعبہ میں اپنی برتری ثابت کی ہے اور اس کا احساس قوم میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اندرونی طور پر بہت سے چیلنجز سے گزر رہا ہے مگر بھارت کے مقابلے میں فتح کے احساس نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت عالمی دنیا کے دباؤ میں بھی آیا ہے اور کشمیر کا ایشو ایک بار پھر نمایاں حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔بھارت کے لیے سفارتی محاذ پر ایک بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کر دی اور اس مسئلے کو ایک عالمی مسئلہ قرار دے کر دونوں ملکوں پر اسے حل کرنے پر زور دیا۔ کشمیر کا مسئلہ جس انداز سے اجاگر ہوا ہے وہ بھارت کے لیے سفارتی سطح پر ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف قومی سطح پر بھی انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری کی پی ٹی آئی نے بھی حمایت کیا ہے حالانکہ کافی عرصے سے پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی حوالے سے اختلافی نقطہ نظر رکھتی تھی لیکن پاک بھارت کشیدگی میں پی ٹی آئی کا رویہ حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ کافی بہتر رہا ہے اور اب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ترقی کی بھی پی ٹی آئی حمایت کر رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت قومی سیاست میں جوہم آہنگی پائی جاتی ہے کیا یہ آگے بھی چل سکے گی اور حکومت اپوزیشن اور مقتدرہ قومی معاملات پر اتفاق رائے قائم رکھ سکیں گے؟حکومت نے بھی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ قومی معاملات پر ان کے ساتھ اتفاق رائے کے لیے تیار ہیں۔پی ٹی آئی کے اندر بھی ایک ایسا مضبوط گروپ موجود ہے جو پی ٹی آئی کے سربراہ کو مشورہ دے رہا ہے کہ ہمیں ہر صورت حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے مقتدرہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ قومی مفاد میں ہر ایک سے بات کرنے کو تیار ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اورمقتدرہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کا راستہ نکالیں گی اور یہی قومی مفاد میں ہے۔اصل میں بانی پی ٹی آئی کو بھی احساس ہوا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں۔ ان حالات میں حکومت کے خلاف تحریک چلانا بھی ممکن نظر نہیں آتاکیونکہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد حکومت اور مقتدرہ کے تعلقات کافی پرجوش نظر آتے ہیں۔ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت اور مقتدرہ کے خلاف کوئی محاذ بناتی ہے تو اس میں کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کا واضح اشارہ دیا ہے۔یہ اچھی بات ہوگی کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن مل کے قومی معاملات پر ایک پرامن اور جمہوری راستہ تلاش کریں جو ملک کے مفاد میں بھی ہو۔ بھارت کے خلاف جنگ ختم ضرور ہوئی ہے لیکن خطرات بدستور موجود ہیں اور جس طرح سے مودی حکومت بار بار پاکستان کو للکار رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹلا ہے مگر ختم نہیں ہوا۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر قوم کو درپیش چیلنجز کا کوئی سیاسی حل تلاش کریں اور جمہوری اداروں کو سیاسی اور قانونی طور پر مستحکم کیا جائے۔ ہم نے سیاسی بحران کو سیاسی حکمت عملی کے تحت حل نہ کیا تو آنے والے دنوں میں ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل مزید سنگین ہو جائیں گے۔اس لیے اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذآرئی کی سیاست کے مقابلے میں مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے اور اس میں حکومت کو ہر سطح پر مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی کو بھی ذمہ دار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان آگے بڑھ سکے اور پی ٹی آئی کا سیاسی کردار ہر سطح پر تسلیم کیا جائے۔پہلے ہی محاذ آرائی کی سیاست نے ہمیں کافی نقصان پہنچایا ہے، ہم اس طرح کے مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہماری قومی سیاست میں سیاسی تلخیوں اور دشمنی کو کم ہونا چاہیے اور اس کے مقابلے میں سیاسی استحکام کو ہر سطح پر فوقیت اور ترجیح دینی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔