عشرہ ذوالحجہ
اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے ذوالحج کے پہلے عشرہ کو برکت و عظمت عطا فرمائی رسول اللہ ﷺ ذوالحج کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے (سنن ابو دائود)اس عشرہ میں کیے جانے والے نیک اعمال کا اجر باقی ایام کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہے(صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ نے ماہ ذوالحج کو بالخصوص اس کے پہلے عشرہ کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب) میں ہوتا ہے، جن کو حرمت عزت والے مہینے کہا جاتا ہے۔ ان میں خونریری، لڑائی جھگڑا وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ رب العزت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں۔ تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے۔ (صحیح بخاری: 4662)
اس مہینے کے پہلے دس دنوں کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عشرہ ذو الحج میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا جہاد (جیسی عظیم عبادت) بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کیلئے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے(یعنی وہ شہید ہو جائے)۔ (صحیح البخاری، باب فضل العمل فی ایام التشریق، الرقم: 969)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرہ ذوالحج زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اللہ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہو، تکبیر یعنی اللہ اکبر اور تحمید یعنی الحمد للہ کہو۔ (مسند عبد بن حمید، احادیث ابن عمر، الرقم: 805)
اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن ’’حج‘‘ کی ادائیگی کا مہینہ ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ۔
اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ تکبیر تشریق یہ ہے:اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
اس مہینے کے پہلے عشرہ(مراد پہلے نو دن ہیں)کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت کا بھی بے پناہ اجر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذوالحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور (عشرہ ذو الحج کی) ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی العمل فی ایام العشر، الرقم: 689)۔ یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحج تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ذوالحج کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے (سنن ابو دائود، باب فی صوم العشر، الرقم: 2081)۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا اے امیر المومنین! آپ کی کتاب(قرآن کریم) میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی ہے تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے اس یہودی سے پوچھا کہ کونسی آیت؟ یہودی نے کہا: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا: ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔ یوم عرفہ (نویں ذوالحج) بروز جمعہ میدان عرفات میں وقوف فرما رہے تھے۔ (صحیح بخاری، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، الرقم: 45)
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ اُم المُومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عرفہ (نویں ذوالحج) کے دن کے روزہ (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے(شعب الایمان للبیہقی، تخصیص ایام العشر من ذی الحج، الرقم: 3486)۔
حضرت فضل بن ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان کی، اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی، تخصیص ایام العشر من ذی الحج، الرقم: 3490)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جبکہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابرسمجھا جاتا تھا۔ (شعب الایمان للبیہقی، تخصیص ایام العشر من ذی الحج، الرقم: 3488)
حضرت ابوقتادہ انصاریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جا ئے گا۔ (صحیح مسلم: 2716)۔
پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کیلئے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اللہ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ(نویں ذوالحج) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، الرقم: 2402)
اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اللہ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الا ضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(سنن ابن ماجہ، باب فیمن قام فی لیلتی العیدین، الرقم: 1782)
اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اللہ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائیگی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قربان والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔ (سنن الدارقطنی، الرقم: 4815)
اُم المُومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو (جامع الترمذی باب ماجا فی فضل الاضحیہ، الرقم: 1413)۔
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے، صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: یارسول اللہﷺ!یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓؓنے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ صحابہ کرامؓ نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہﷺ! اون (کے بدلے کیا ملے گا) فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ، باب ثواب الاضحیہ، الرقم: 3127)
جس شخص نے قربانی کرنی ہوتو اسے چاہیے کہ ذوالحج کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔
حضرت اُم سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب ذوالحج کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آ جائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے (صحیح مسلم:5233)۔
اللہ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے، امین۔