مکہ معظمہ کی عظمت

تحریر : محمد الیاس قادری


’’بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ مکہ میں ہے‘‘(سورہ آل عمران) ’’جو خانہ کعبہ کے قصد سے آیا اور اونٹ پر سوار ہوا تو اُونٹ جو قدم اٹھاتاہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کیلئے نیکی لکھتا ہے، خطا مٹاتا اور درجہ بلند فرماتا ہے ‘‘(شعب الایمان)

اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن کریم کے پارہ 4، سورہ آل عمران کی آیت 96 میں فرمانِ عالیشان ہے، ترجمہ کنزالایمان: ’’بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنماہے‘‘۔مفتی احمدیار خان ؒ اس آیت کریمہ کے تحت تحریر کرتے ہیں: اے مسلمانو! یا اے  انسانو! یقین سے جان لو کہ ساری روئے زمین پر سب سے پہلے اور سب سے افضل گھر جو لوگوں کے دینی اور دُنیوی فائدوں کیلئے پیدا کیا گیا اور بنایا گیا وہی ہے جوکہ مکہ شریف میں واقع ہے، نہ بیت المقدس جو درجے میں بھی کعبے کے بعد ہے اور فضیلت میں بھی۔ حدیث پاک میں ہے: ’’کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے‘‘۔ (فردوس الاخبار، حدیث 2791، ج1 ص376)۔ 

حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب کعبہ شریف میں داخل ہوئے تو اُس کے گوشوں (کونوں) میں دُعا مانگی اور نماز نہ پڑھی حتیٰ کہ وہاں سے تشریف لے آئے جب نکلے تو دو رکعتیں کعبے کے سامنے پڑھیں اور فرمایا: ’’یہ ہے قبلہ‘‘ (صحیح بخاری، ج1، ص 156، حدیث 398)۔

 مفتی احمدیار خان ؒ ’’یہ ہے قبلہ‘‘ کی وضاحت میں لکھتے ہیں: یعنی تاقیامت کعبہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہو چکا، کبھی منسوخ نہ ہو گا، اس میں لطیف (باریک) اشارہ اس طرف بھی ہو رہا ہے کہ کعبے کا ہر حصہ قبلہ ہے، سارا کعبہ نمازی کے سامنے ہونا ضروری نہیں (مراۃ المناجیح، ج1، ص429)۔

بہار شریعت، جلداوّل، صفحہ 487 پر مسئلہ نمبر 50 ہے: کعبہ معظمہ کے اندر نماز پڑھی تو جس رُخ چاہے پڑھے، کعبے کی چھت پر بھی نماز ہو جائے گی مگر اس کی چھت پر چڑھنا ممنوع ہے۔ (غنیہ ص616، وغیرہا)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ 3 مسجدوں کے سوا اور کسی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے)۔ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ‘‘ (صحیح بخاری، ج1، ص401، حدیث 1189)۔

  قرآن پاک میں رب عزوجل فرماتا ہے، ترجمہ کنزالایمان: ’’تم فرما دو، زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا‘‘ (سورۃ الانعام:11) ۔

’’مرقاۃ‘‘ نے اسی جگہ اور ’’شامی‘‘ نے (باب) ’’زیارتِ قبور‘‘ میں فرمایا کہ ’’چونکہ ان3 مساجد کے سوا تمام مسجدیں ثواب میں برابر ہیں اس لیے اور مسجدوں کی طرف (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے) سفر ممنوع ہے۔ 

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو خانہ کعبہ کے قصد سے آیا اور اونٹ پر سوار ہوا تو اُونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کیلئے نیکی لکھتا ہے اور خطا مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے ، یہاں تک کہ جب کعبہ معظمہ کے پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفاو مروہ کے درمیان سعی کی، پھر سر منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے اُس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا‘‘ (شعب الایمان، ج3، ص 478، حدیث 4115) ۔

حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے اس دُنیا میں تشریف لائے تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وحشت و تنہائی کی فریاد کی، پس اللہ عزوجل نے آپ ؑکو کعبے کی تعمیر اور اس کے طواف کا حکم دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک یہی کعبہ برقرار رہا (تفسیر کبیر، ج3، ص296) ۔

مولانا محمد الیاس عطار قادری شیخ طریقت، امیر اہل سنت، بانی دعوت اسلامی ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔