مصیبت زدہ شیر
مانی خرگوش جیسے ہی اپنے بستر پر سونے کیلئے لیٹا تو ایک درد بھری آواز نے اسے چونکا دیا۔ مانی کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی سخت تکلیف میں ہے۔
پہلے مانی خرگوش نے سوچا کہ اسے باہر جا کر دیکھنا چاہئے۔ شاید کسی کو اس کی مدد کی ضرورت ہو۔ پھر وہ یہ سوچ کر رک گیا کہ رات کا وقت ہے مگر کوئی درندہ شکار کی تلاش میں پھر رہا ہوا تو اس کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ میں کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالوں۔ وہ سونے کی کوشش کرنے لگا، کراہنے کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد مانی نے سوچا کہ کسی مصیبت زدہ کی مدد نہ کرنا اچھی بات نہیں۔ یہ سوچ کر وہ گھر سے نکل آیا۔ آواز تالاب کی طرف سے آ رہی تھی۔
مانی خرگوش جب وہاں پہنچا تو اسے زمین پر کوئی بیٹھا نظر آیا۔ مانی نے آگے بڑھ کر دیکھا ایک شیر اپنی ٹانگ تھامے بیٹھا تھا جو لوہے کے ایک شکنجے میں پھنسی ہوئی تھی۔ مانی خرگوش نے اس سے پوچھا ’’تمہاری ٹانگ اس شکنجے میں کیسے پھنس گئی‘‘۔ شیر کراہتے ہوئے بولا ’’میں تالاب سے پانی پینے آیا تھا۔ بدقسمتی سے اندھیرے میں اس شکنجے کو نہ دیکھ سکا‘‘۔
مانی نے جھک کر دیکھا تو سمجھ گیا کہ کسی شکار نے جانوروں کو پکڑنے کیلئے جھاڑیوں میں شکنجہ لگا رکھا تھا۔ شیر کا پائوں انجانے میں اس پر پڑ گیا اور اس کی ٹانگ پھنس گئی۔ درد کی شدت سے شیر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ مانی نے شیر کی ٹانگ شکنجے سے نکالنی چاہی مگر ناکام رہا۔ پھر اس نے کچھ سوچا اور شیر کو تھوڑا انتظار کرنے کا کہہ کر جنگل کی طرف بھاگا۔ تھوڑی دیر میں اس نے جنگل کے بہت سے جانوروں کو اکٹھا کیا اور شیر کے پاس لے آیا۔
شیرکو تکلیف میں دیکھ کر جانوروں کو بہت دکھ ہوا۔ وہ شکنجے سے اس کی ٹانگ چھڑانے کی ترکیب سوچنے لگے مگر کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس کی ٹانگ کیسے چھڑائی جائے۔ آخر ہنی گلہری بولی ’’کیوں نہ ہم زمین کھود کر شکنجے کو باہر نکال لیں؟‘‘
سنہری مرغی بولی ’’ترکیب تو اچھی ہے مگر اس بے چارے کی ٹانگ تو پھر بھی شکنجے میں پھنسی رہے گی‘‘۔ مانی خرگوش بولا ’’سب سے پہلے ہمیں کسی محفوظ جگہ چلے جانا چاہیے تاکہ شکاری سے بچا جا سکے۔ پھر شکنجہ کھولنے کی ترکیب بھی سوچ لیں گے‘‘۔ اس کی رائے سے سب نے اتفاق کیا۔ مانی خرگوش، ہنی گلہری اور سنہری مرغی اپنے پنجوں سے زمین کھودنے لگے۔ بی بطخ مٹی ایک طرف ہٹاتی جا رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد شکنجہ زمین سے نکل آیا۔ سب جانوروں نے مل کر لوہے کا بھاری شکنجہ اٹھایا اور کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں چل پڑے۔ ریچھ بھی لنگڑاتا ہوا بڑی مشکلوں سے شکنجے کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ سب ایک پہاڑی کے پاس پہنچ کر رک گئے۔ وہاں مانی خرگوش نے شکنجے کا اچھی طرح جائزہ لیا تو اسے ایک کیل نظر آئی۔ اس نے زور سے کیل کھینچی تو شکنجہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ شیر ایک دم کھڑا ہو گیا۔ اس کی ٹانگ آزاد دیکھ کر سب جانور خوش ہو گئے۔ شیر نے ان سب کا شکریہ ادا کیا اور سب جانور اپنے گھروں کو چلے گئے۔
دوسرے دن شکاری اس خیال سے شکنجہ دیکھنے آیا کہ شاید اس میں کوئی شکار پھنس گیا ہوگا لیکن یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا کہ وہاں شکار تو کیا ہوتا شکنجہ بھی غائب تھا۔
کمزور جانوروں نے اپنے اتحاد سے چالاک شکاری کو شکست دے دی تھی۔ وہ شکار کے لالچ میں اپنے شکنجے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔