سوء ادب
Money Makes The Mayor Go ایک صاحب اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے کسی دوسرے شہر گئے جہاں ان کے دوست میئر تعینات تھا۔
شہر میں پہنچ کر انہوں نے ایک دکان دار سے میئر کے گھر کا پتا پوچھا تو وہ بولا ، کس منحوس رشوت خور کا نام لے دیا ہے صبح صبح۔ اس نے دو تین اور اشخاص سے بھی پوچھا تو انہوں نے بھی ایسی ہی جلی کٹی سنائیں۔ آخر ایک پولیس والے نے اس کی مشکل آسان کی اور اسے میئر کے گھر تک چھوڑ آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تمہیں اس کام کی تنخواہ کتنی ملتی ہے ؟ اس پر وہ بولا ، میں اس کام کی تنخواہ نہیں لیتا اللہ نے جو عزت دی ہوئی ہے، میرے لیے وہی کافی ہے۔
رشوت ؟
کسی شخص کا ایک کام کسی کلرک کے پاس اٹکا ہوا تھا، جس سے اُس نے کہا کہ اگر آپ میرا یہ کام کر دیں تو میں آپ کی خدمت میں دو سو روپے پیش کروں گا۔ جس پر کلرک چیخ کر بولا : ’’تم مجھے رشوت دینا چاہتے ہو ؟ اور وہ بھی اتنی تھوڑی ؟‘‘
رنگِ ادب
کتابی سلسلہ 65 ، 66 یہ پرچہ شاعر علی شاعر کراچی سے نکالتے ہیں۔ اس کے مارکیٹنگ منیجر شرازی شاعر ہیں جبکہ ناشر رنگِ ادب پبلیکیشنز کراچی ہے اور قیمت 1000 روپے ہے۔
اداریہ مہمان مدیر پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کراچی کا تحریر کردہ ہے۔ شروع میں ظفر اقبال کی 10 غزلیں درج کی گئی ہیں۔ تنقیدی مضامین میں رشید بٹ ، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ، بشریٰ رحمان ، مرزا سلیم بیگ ، فرحت عباس شاہ ، ڈاکٹر بلقیس عومرانی بلوچ ، پروفیسر یونس حسن ، حمیرہ اطہر ، سلمان سرور و دیگران کے قلم سے ہیں۔
افسانے ڈاکٹر شکیل احمد خان ، انور کلیم ، زاہد رشید و دیگران جبکہ طنز و مزح میں رشید خاں اور رفیق بلوچ ہیں ۔سفر نامچے خاکہ اور تبصرے اس کے علاوہ ہیں جبکہ رنگِ نثر میں رام لعل، ندا فاضلی، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین و دیگران شامل ہیں۔
شاعری میں نسیمِ سحر ، امجد بابر ، شبیر نازش ، سلمان ریاض، عبیداللہ ساغر اور ضریف احسن جبکہ تبصرے شاہ نواز فاروقی ، ممتاز راشد لاہوری، مصطفیٰ ارباز اور صائمہ ممتاز کے قلم سے ہیں۔
رنگِ نظم میں ضیاء فاروقی ، امیر حمزہ ثاقب، عبداللہ ندیم، راجیش ریڈی، ریاض احمد منصوری، بابر رشید، منور رانا ، جمیل مرصع پوری، سردار پنچھی ، غلام مرتضیٰ راہی ، نعمان امام ، شکیل جمالی ، فصیح اکمل، سید ریاض رحیم ، محمد وجاہد سید ، میر نظری باکری اور میر افضل۔ سفر نامچے ڈاکٹر شیمہ ربانی جبکہ خاکہ محمد ایاض کیانی کے قلم سے ہیں۔ آخر میں وقاص عزید کی رپورٹ بیادِ قاصر ، پارٹی ہاؤس اور ناسٹل جیا ہے۔
آج کا مطلع
اْس کی ہر طرزِ تغافل پہ نظر رکھتی ہے
آنکھ ہے ، دل تو نہیں ، ساری خبر رکھتی ہے