خالد احمد ۔۔سب کے ساتھ ہیں مگر سب سے الگ

تحریر : ڈاکٹرمحمد عرفان پاشا


انہوں نے پنجاب کے صوفیوں کے کلام کی تہہ میں اترایسی نظم تخلیق کی جس کی اردو میں مثال نہیں ملتی خالد احمدنے کسی بھی شاعرکے اثرات قبول نہیں کئے‘ انہوں نے اپنی شعری دنیا خود تخلیق کی‘ اپنے شعر ورثے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجودانہوں نے اپنے رستے خود چنے

خالد احمد نے اپنے لئے جو شعر کی دنیا تخلیق کی وہ کئی وجوہ کی بنا پر حیرت انگیز تھی۔ انہیں فن شعر میں جو مہارت تامہ میسر آئی وہ کسی کسی خوش قسمت کے ہاتھ آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ فیضان، بے پناہ ریاضت، خلوص اور انہماک کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بلاشبہ خالد احمد ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقات کے مطالعے سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک فنانی الشعر ہیں۔ انہوں نے زبان اور ہیئت کے بھی بہت تجربے کئے ۔

یہ حقیقت ہے کہ شاعری محض خیال یا خیال کے اظہار تک محدود نہیں، یہ تو پیرایۂ اظہار سے تجربے کو زندہ صورت دینے کا نام ہے۔ ایسی صورت جس سے ذہن اور روح کے دریچے کھلتے چلے جائیں، شعر میں لفظ اپنے لغوی معانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔وہ اپنی صوت، اپنے آہنگ، اپنے سیاق و سباق، اپنی علامتی ندرت اوراپنی تہذیبی حیثیت سے زندہ انسانوں کی طرح سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور خالد احمد نے نہ صرف لفظ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا بلکہ اسے پوری احتیاط اور کمال کے ساتھ برتا بھی ۔

خالد احمد نے جب شعر کہنا شروع کیا تو اس وقت ترقی پسند ادب کی تحریک کا اور جدید ادب کے مدرسہ فکر کا زور و شور کچھ مدھم پڑ چکا تھا۔ ان تحریکوں کے بعد بھی اردو ادب میں کچھ دوسری تحریکیں نمودار ہوتی رہیں مگر انہوں نے وہ اہمیت حاصل نہ کی جو ان دو تحریکوں کو اپنے زمانے میں ملی تھی۔ خالد احمد ان تحریکوں سے کما حقہ آگاہ بھی تھے اور انہوںنے ان تحریکوں سے استفادہ بھی کیا ، مگر وہ ان میں سے کسی ایک کے ہو کر نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی الگ انفرادیت قائم کی۔ وہ اپنی سرزمین اور اپنے کلاسیکی رویوں میں اتنے رچے بسے تھے کہ انہیں باہر سے آئی ہوئی کوئی تحریک بھی بہا کر نہ لے جا سکتی تھی۔

 ان کی شاعری کے کئی رنگ اور اس کی کئی پرتیں ہیں، جن میں سب سے نمایاں رنگ وہ ہے جو اس علاقے کے تصوف سے ابھرتا ہے، جس میں انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، جس رنگ کو ان کی حُب خدا اور حُب رسول ﷺ نے نکھار دیا۔ یہاں کی اسلامی روایات اور تہذیب کو انہوں نے اپنی تخلیقات کا مرکزی نکتہ بنا لیا۔انہوںنے ساٹھ کی دہائی میں شعر کہنا شروع کیا ۔انہوں نے  1974ء میں اپنا  پہلاشعری مجموعہ’’تشبیب‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ تشبیب سے پہلے ان کی غزلوں کی کتاب بھی تیار تھی۔’’تشبیب‘‘ کے پہلے شائع کئے جانے کے پیچھے ایک واضح مقصد نظر آتا ہے۔ تشبیب میں صرف تین نظمیں ہیں جن کے عنوان ہیں ’’اٹھان‘‘، ’’رددِ نبرات‘‘ اور ’’بادِ نوال‘‘۔ انہیں نظمیں کہنا بھی پوری طرح درست نہیں،وہ دراصل قصیدے کی ہیئت میں نعتیں ہیں۔ یہ طویل نعتیں ہیں۔ ان میں سے ایک نعت تین سو سے زیادہ شعروں پر مشتمل ہے۔ دوسری دو نعتیں بھی سو اور سوا سو اشعار سے کم نہیں۔ اس کتاب کو پہلے چھپوانے کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ خالد احمد اپنی پہچان، پہلے ایک نعت گو کی حیثیت سے کروانا چاہتے تھے یا انہیں جو عقیدت رسول خداﷺ سے ہے، اس کو اوّلیت کا مقام دینا چاہتے تھے۔ اس بات پر خیال آیا کہ اقبال ؒ نے بھی سب سے پہلے مثنوی’’ اسرار خودی‘‘ شائع کی تھی، حالانکہ اس وقت ’’ بانگ درا‘‘ کا بیشتر کلام لکھا جا چکا تھا۔ اقبال ؒ بھی قوم کو پہلے اپنے فلسفہ حیات و خودی سے آشنا کرنا چاہتے تھے اور بعد میں اپنے دوسرے کلام سے۔ خالد احمد نے اپنی اس پہلی ہی کتاب میں اپنی ندرت کلام کا ثبوت دیا۔ اتنی پابند ہیئت میں جہاں چھوٹی بحر کے نہایت مختصر مصرعوں میں، جن میں تین الفاظ بھی بہ مشکل سماتے ہوں۔ قافیوں کا اتنا کڑا اہتمام اور وہ بھی سینکڑوں شعروں تک ایک مہم سے کم نہ تھا، جسے خالد احمد نے بڑی خوبی سے سر ہی نہیں کیا بلکہ اس میں اوّل سے آخر تک ایک حسی جمال بھی قائم رکھا۔

وقت کے ساتھ دوسرے رنگوں کی شاعری کے ساتھ ساتھ خالد احمد کے یہاں یہ رنگ نکھرتا چلا گیا۔ یعنی حُب خدا اور حُب رسول ﷺ میں حمد و نعت اور تصوف سے لگائو بڑھتا گیا اور ان کے پیرایہ اظہار میں خالد احمد زینہ بہ زینہ اس عروج تک پہنچ گئے جہاں ان  کے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ شاید اس سلسلے کی خوبصورت ترین نظم’’ مادھولال حسین ؒ کیلئے‘‘ ہے۔ بقول ضیا جالندھری : ’’میں نے جس روز’’فنون‘‘ کے ایک شمارے میں یہ نظم پہلی بار پڑھی، میں دیر تک اس کے سحر میں رہا۔ شام کو جب حمید نسیم سے ٹیلی فون پر بات کی تو ان کا تاثر بھی کچھ ویسا ہی تھا۔ اس نظم پر حمید نسیم نے ’’ دراز پلکوں کے سائے سائے‘‘ کے دیباچے میں اتنا خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ اس کے بعد اس پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی‘‘۔

جس چیز نے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ خالد احمد نے پنجاب کے صوفیوں کے کلام کی تہہ میں اتر کر اس کی کیفیت کو کلی طور پر محسوس کرکے، بلکہ اپنا کر، ایسی زبان اور ہیئت میں اس نظم کو تخلیق کیا تھا، جس کی اردو میں مثال نہیں ملتی۔ اس نظم میں جا بہ جا پنجابی زبان کے لفظ اس طرح استعمال کئے گئے تھے کہ وہ نظم کے تاثر کو چلا دیتے تھے۔ خالد احمد کا یہ انداز، جس میں انہوں نے پنجابی زبان کے الفاظ اس خوبی سے جگہ جگہ نگینوں کی طرح جڑے ہیں، ان کا عام انداز نہیں ہے۔ اس نظم میں یا اس طرح کی نظم میں ان کا جو جواز ہے، ہر نظم میں نہیں ہوتا اور خالد احمد یہ جانتے تھے اس لئے وہ دوسری طرح کی نظموں میں یہ رنگ اختیار نہیں کرتے تھے۔ وہ جب اس زبان اور اس عارفانہ طریق اظہار سے کام لیتے تو وہ ایک ایسا ماحول قائم کردیتے جو اس نظم کیلئے مناسب ترین ہو مگر جب وہ دوسری طرح کی نظمیں کہتے تو وہ ان کیلئے لب و لہجہ بھی دوسرا لاتے۔

یہی حال خالد احمد کی نظموں کا ہے۔ ہر نظم اپنا پیرایہ ساتھ لے کر آتی ہے۔ اس طرح ہر نظم کیلئے زبان بھی وہی استعمال ہوتی ہے جو اس کے موضوع کیلئے موزوں ترین ہو۔30کی دہائی میں مغرب کی پیروی میں اردو ادب میں جو نئی تحریکیں نمودار ہوئیں ان میں نظم آزاد بھی تھی۔ ملک کی آزادی تک یہ ہیئت اپنا ایک مستقل مقام حاصل کر چکی تھی مگر اس زمانے کے بعض جدید شعرا ایسے بھی تھے جو ان تحریکوں سے منسلک ہوتے ہوئے بھی کلاسیکی زبان اور روایتی ہیئت سے تعلق منقطع کرنے پر تیار نہیں تھے۔ 

وہ نظم آزاد کے مخالف نہیں تھے۔ انہوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں مگر زیادہ تر وہ پابند ہیئتوں میں تجربے کرتے رہے جیسے احمد ندیم قاسمی، مختار صدیقی، اختر الایمان، قیوم نظر وغیرہ۔ خالد احمد کی شاعر ی میں صورتحال اس سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ جہاں تک ہیئتوں کا تعلق ہے، انہوں نے نہ صرف اپنے یہاں کی کلاسیکی ہیئتوں میں اپنے کمال کا ثبوت دیا ہے بلکہ مغرب کی بعض ہیئتوں کو بھی انتہائی فنکارانہ مہارت سے استعمال کیا جن میں نظم آزاد بھی شامل ہے۔ خالد احمد نے مغرب کی بعض دوسری نہایت مشکل اور ادق ہیئتوں کو بھی حیرت انگیز کامیابی سے نبھایا۔ 

خالد احمد ایک نہایت محتاط، چابک دست، ماہر فن کار کے طور پر سامنے آئے جو ایک ایک حرف کی صوت، ایک ایک لفظ کی جملہ پرتوں سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان سے پوری طرح فائدہ اٹھانا جانتے تھے۔انہوں نے اپنی نظموں میں جس طرح عروض و قوافی کا استعمال کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شعری حسیات کس قدر نفیس اور اعلیٰ ذوق پر مبنی تھیں۔ یہ تجربے ان کے ابتدائی کلام میں  جو ’’ہتھیلیوں پہ چراغ‘‘ میں شائع ہوا ہے، نظر آ جاتے ہیں۔ اس کتاب میں غزلیں بھی ہیں۔ پابند نظمیں بھی، نظم آزاد بھی اور ایسی طویل مصرعوں کی نظمیں بھی جن میں ایک ایک مصرع بیسیوں ارکان پر مشتمل ہے۔ انہیں فن شعر کی مشکلات کا شروع ہی سے احساس تھا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ پہلی صدا پرندے کی‘‘1992ء میں شائع ہوا۔ جس میں 1976ء سے 1985ء تک کا کلام ہے۔اپنے اگلے مجموعے تک آتے آتے خالد احمد تخلیقی عمل کے بہت سے مراحل طے کرچکے تھے۔یہ طویل ردیفیں، یہ مصرعوں کے اندر قافیوں کی پابندی اور پھر یہ غنائیت اور موسیقی کسی کم درجے کے فن کار کے ہاتھوں ممکن نہ تھی۔ خالد احمد اپنی اچھی نظموں میں، جو بہت سی ہیں، بیان نہیں دیتے، دلائل جمع نہیں کرتے، سپاٹ باتیں نہیں کرتے بلکہ وہ نظم کی ہیئت اور الفاظ سے ایک ایسا ماحول تیار کرتے ہے جس میں وہ تمام تجربے، احساسات مجتمع ہو کر ایک زندہ متحرک اکائی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔

درحقیقت خالد احمد ایک درویش طبع شخصیت تھے۔ وہ بہت گرم اختلاط، پرخلوص، سچے اور کھرے آدمی تھے۔ ان کی محبتوں کے ثبوت تو ان کی نظموں میں بکھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے بہت سے دوستوں، شاعروں اور دیگر اشخاص پر نظمیں کہیں۔ شاید ہی کسی اور شاعر نے اتنے بہت سے لوگوں کو نظموں میں خراج محبت پیش کیا ہو، جتنا خالد احمد نے کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فیض اور میرا جی کے سلسلے میں وہ وفور اشتیاق نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے اشخاص ، خصوصاً احمد ندیم قاسمی کیلئے نظموں میں نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ بھی ہے۔

 احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں: ’’ خالد احمد ہی کو لیجئے کہ میرا بھائی بھی ہے، میرا بیٹا بھی ہے اور میرا دوست بھی ہے، اس حقیقت کو ایک دنیا جانتی ہے، کیونکہ ماضی میں خالد احمد کے منہ سے جو بھی جملہ صادر ہوا یا خالد احمد کے قلم نے جو بھی فقرہ لکھا اسے دنیا نے مجھ سے منسوب کر دیا‘‘۔ پھر دوسری جگہ احمد ندیم قاسمی نے وضاحت کی: ’’خالد احمد میرے ہاتھوں میں پلا، بڑھا اور پڑھا ہے مگر مجال ہے جو اس نے میری شخصیت کا ذرا سا اثر بھی قبول کیا ہو‘‘۔

یہ آخری جملہ توجہ کا مستحق ہے اور خالد احمد کے ایک کھرے اور سچے فنکار ہونے کی سند یہ واقعہ ہے کہ خالد احمد کی شاعری نے احمد ندیم قاسمی کی شاعری کے اثرات قبول نہیں کئے۔ انہوں نے اپنی شعری دنیا خود تخلیق کی ہے۔ اپنے شعر ورثے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے راستے خود چنے ہیں بلکہ خود بنائے ہیں وہ اپنے عصر کے سب اثرات قبول کرتا ہے، وہ اپنے عہد کی آواز  ہیں۔ سب کے ساتھ ہیں مگر سب سے الگ۔

خالد احمد کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں بے شمار ایوارڈز کے ساتھ ساتھ حکومتِ پاکستان نے تمغۂ حسنِ کارگردگی سے بھی نوازا تھا۔ وہ 19 مارچ 2013ء کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کر گئے تھے اور لاہور میں مدفون ہیں ۔

غزل

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر

بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں

ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے

وا کر سکا مگر لب گویا نہ تو نہ میں

نوحے فصیل ضبط سے اونچے نہ ہو سکے

کھل کر دیار سنگ میں رویا نہ تو نہ میں

جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی

بر گشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں

دوشعر

زندگی بھر یہ بوجھ ڈھونا ہے

آگہی عمر بھر کا رونا ہے

رات ان کے بدن کی چاندی تھی

صبح ان کے بدن کا سونا ہے

ایک شعر

خون سے جلتے چہرے تن میں سلگتی ہڈیاں

سانول ویہڑے آیا، دیکھوں چک چک اڈیاں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاک بنگلہ ٹی 20 سیریز:گرین شرٹس کا پلڑا بھاری

پاکستان بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کا آغاز آج سے ڈھاکہ کے شیر بنگلہ سٹیڈیم میں ہو گا۔پاکستان ٹی ٹوئنٹی میچز میں بنگلہ دیش پر حاوی رہا ہے، لیکن میزبان ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پراعتماد ہے اور وہ سری لنکا کے خلاف کامیابی کا تسلسل لے کر پاکستان کے خلاف میدان میں اُترے گا۔

قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد: کھیلوں میں اصلاحات وعملی ا قدامات

ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت ہاکی، سکواش، کرکٹ اور سنوکر کا عالمی چیمپئن تھا۔ ہاکی اور سکواش میں تو گرین شرٹس ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے جبکہ دیگر کھیلوں میں بھی سبزہلالی پرچم ہمیشہ سربلند دکھائی دیتا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کا ایک سال ،عدلیہ میں تاریخی اصلاحات

جسٹس مس عالیہ نیلم کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے وہ تاریخی اقدامات کیے ہیں جو لاہورہائیکورٹ کے 150سالہ دور میں کوئی اور نہ کر سکا۔

مہمان نوازی !

برسات کے دن تھے، ہر طرف بارش سے موسم خوشگوار اور سڑکیں پانی سے جل تھل تھیں۔ بارش رکنے کے کچھ دیر بعد بہت حبس ہو گیا تھا۔

نصیحت آموز باتیں

٭… کتابوں سے دوستی کریں کیونکہ علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا۔

انوکھا سخی (قسط نمبر1)

حجاز کی سرزمین عجب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تھا، خاندانوں کو جھگڑتے دیکھا تھا، برادری کے نام پر نفرت کے کھیل دیکھے تھے، لیکن یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو گیا تھا، ماں اپنے ہی سگے بیٹے کو زنداں میں بند کر رہی تھی، بھائی بھائی کی جان کے در پے تھا۔ یوں لگتا تھا کسی نے اُن کے دلوں کا رخ پھیر دیا ہے۔