عظیم الشان عبادت
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق انسان کے بدن سے ہے، جیسے نماز اور روزہ، بعض کا تعلق مال سے ہے جیسے زکوٰۃ، قربانی اور صدقات‘ جبکہ حج بیت اللہ ایسا خدائی حکم ہے جس کا تعلق انسان کے بدن اور مال دونوں سے ہے۔ حج بہت عظیم الشان عبادت ہے، احادیث مبارکہ میں اس کے فضائل و مناقب،آداب، شرائط، مناسک، فرائض، واجبات، سنن و مستحبات، ارکان اور طریقہ کار مذکور ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ (دینِ اسلام میں)کونسا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے) اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل (زیادہ بہتر ہے؟) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا حج مبرور(صحیح بخاری:1519)۔یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعض احادیث میں افضل ترین عمل کبھی حج کو، کبھی نماز،کبھی صدقہ، کبھی جہاد اور کبھی والدین کی خدمت کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی تمام احادیث کا تعلق وقت، اشخاص اور حالات کے ساتھ ہے۔ حالات کے مطابق جس عمل کی زیادہ ضرورت ہو وہی زیادہ نفع مند اور فضیلت والا بن جاتا ہے۔ بعض کم علم لوگ کبھی کسی ایک عمل کی فضیلت کو بیان کرتے کرتے دوسرے عمل کی اہمیت کم کر دیتے ہیں، اگر شریعت کے مزاج اور منشاء کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو تمام الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ(کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے) کیلئے حج کرے اور دورانِ حج (احرام کی حالت میں) اپنی بیوی کے پاس نہ جائے، دورانِ سفر اپنے ساتھیوں سے بیہودہ باتیں یا لڑائی جھگڑا نہ کرے اور (کبیرہ) گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے)جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا(صحیح بخاری :1521)۔ حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہیں، اگر وہ دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا‘‘(سنن ابن ماجہ، باب فضل دعا الحاج، حدیث 2892)
نیت کی درستگی:اس عظیم عبادت کی ادائیگی کے وقت خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی کی نیت کریں اور اس کو محض اللہ کا خاص فضل اور احسان سمجھیں۔ خودنمائی، ریا کاری، دکھلاوا، لوگوں کی واہ واہ لوٹنے اور خود کو ’’حاجی صاحب‘‘ کہلوانے کا جذبۂ خود پسندی ترک کر کے صرف اللہ کی رضا کا جذبہ پیدا کریں۔
فریضہ حج کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں: حج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں ۔ ہمارے ہاں معاشرے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے اولاد کی شادیوں سے فراغت مل جائے پھر حج کریں گے، والدین اپنی اولاد کی شادی کو اپنے اوپر فرض کا درجہ دے کر حج میں تاخیر کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ اس حوالے سے دوباتیں پیش نظر رہیں، ایک تو یہ کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں نامعلوم آئندہ سال زندہ بھی رہیں گے یا نہیں۔ دوسرا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان میں طاقت کم ہوتی جاتی ہے، بڑھاپا اور ضعف بڑھ جاتا ہے۔ مناسک حج کی ادائیگی کیلئے قوت، ہمت اور چستی چاہیے۔ تاخیر کی صورت میں انسان میں تندرستی اور چستی کے بجائے سستی اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عبادات میں وہ لطف نہیں ملتا جو جوانی کی عبادت میں ملتا ہے۔ مکان کی تعمیر اور اولاد کی شادی جیسے عذر کی آڑ میں فریضہ حج میں تاخیر کرنا نادانی کی بات ہے۔
گناہوں سے اجتناب:تمام عبادات بالخصوص فریضہ حج کی حقیقت پانے اور صحیح معنوں میں اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچائے۔
بازاروں میں وقت برباد نہ کریں:حرمین شریفین بہت مقدس مقامات ہیں، وہاں کی عبادات کا ثواب عام جگہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان کی زندگی میں قسمت سے ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں، اس لیے ان اوقات کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ بازاروں کی رونق بننے کے بجائے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں، طواف کی کثرت کریں۔