حج کا فلسفہ اور روح
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر حج کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایسے منکرین کے افعال سے غنی ہے۔
متفق علیہ حدیث کے مطابق جو شخص اللہ کیلئے حج کرے اور دوران حج شہوات سے بچے،بیہودہ کلام یا لڑائی جھگڑا نہ کرے اورکبائر سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعدگناہوں سے ایسا پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ اس دن اپنی ماں کے گھر پیدا ہوا۔
رسول اللہ ﷺنے حج اور عمرے کیلئے مختلف ممالک اور شہروں سے آنے والوں کیلئے مختلف مقامات کو میقات مقرر فرمایا۔ حج کی نیت کرنے و الا شخص جب احرام پہننا چاہے تو اس کو غسل کر نے کے بعد دو اَن سلی چادریں پہن لینی چاہئیں اور ایسے جوتے پہننے چاہئیں جن میں اس کے ٹخنے ننگے ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: تمہیں تہہ بند‘ چادر اور جوتوں میں احرام باندھنا چاہیے۔ اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لو۔ میقات پر پہنچنے کے ساتھ ہی باآواز بلند تلبیہ پڑھنا چاہیے جس کاترجمہ یہ ہے: ’’حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘ بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کے بعد مسنون ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کا سوال کرے اور آگ سے پناہ مانگے۔ خواتین کو آہستہ تلبیہ پڑھنا چاہیے۔
مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے جو رسول اللہﷺمساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے تھے۔ طواف کی ابتدا حجر ِاسود کو بوسہ دینے‘ چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔ طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے۔ طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیزی سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں۔ سات چکر مکمل ہوجائیں تو اس کے بعد مقام ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اوراگر مقام ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو اس جگہ کے دائیں‘ بائیں یا عقب میں جہاں بھی جگہ ملے دو نوافل ادا کر لیں۔
طواف مکمل کرنے کے بعد حاجی کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے۔ آپﷺنے سعی کی ابتدا صفا سے کی۔ صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور حاجی مروہ تک جاتا ہے۔ صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو حاجی کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہوجائے تو حاجی کو رفتار دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔ تیز رفتار سے چلنے والے علاقے کے تعین کیلئے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو حاجی کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کرکے آخر سے کاٹ لینے یا کٹوا لینے چاہئیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور حاجی عمرے کا احرام اتارکر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
8 ذوالحجہ تک حاجی کو چاہیے کہ کثرت سے دعائیں‘ استغفار‘ درود شریف کا ورد‘ بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے۔8 ذوالحجہ آجائے تو اپنی قیام گاہوں میں ہی دوبارہ احرام باندھ لینے چاہئیں۔ اگرچہ 8 ذوالحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص وقت پر نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ادا ہوجاتا ہے۔8ذوالحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد پانچ نمازوں کی ادائیگی مکمل ہونے پر 9ذوالحجہ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جب 9 ذی الحجہ کو سورج طلوع ہو جائے تو اس کے بعد تمام حاجیوں کو میدانِ عرفات کا قصد کرنا چاہیے۔ میدانِ عرفات کی طرف جاتے ہوئے بلند آوازسے تلبیہ یا تکبیرکا ورد کرنا چاہیے۔ حج کے خطبے کو نہایت توجہ کے ساتھ سننا چاہیے لیکن اگر ہجوم کی وجہ سے خطبۂ حج کو نہ سنا جا سکے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ کی طرف متوجہ رہنا بھی کفایت کرے گا۔
اگرچہ میدانِ عرفات میں ظہر اور عصرکی نمازکی ادائیگی کے بعد داخل ہونا مسنون اور افضل عمل ہے لیکن اگر رَش اور مجبوری کے سبب کوئی شخص تاخیر سے میدانِ عرفات میں داخل ہو تو اس کا حج ادا ہو جائے گا۔ نمازِ ظہراور عصرکی ادائیگی کے بعد جبلِ رحمت کے قریب آنا چاہیے‘ اگر جگہ نہ ملے تو میدانِ عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف (رُکنا‘ قیام کرنا) کرنا درست اور جائز ہے۔
وقوفِ عرفات کے دوران جب سورج ڈوب جاتا ہے تو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بجائے عرفات سے کوچ کیا جاتا ہے۔ عورتوں‘ بچوں کو رات کو ہی منیٰ جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔یوم النحر اور ایام تشریق میں قربانی کی جاتی ،بالوں کو کٹوایا جاتا، طواف افاضہ کیا جاتااور جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔12 یا 13 ذوالحجہ کی شام تک منی میں قیام کیا جاتا ہے اور مکہ چھوڑنے سے قبل طوافِ وداع کیا جاتا ہے۔ اس طرح حج مکمل ہوجاتا ہے۔