آب زم زم

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


زم زم کے پانی کو جس نیت سے پیا جائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے،کھڑے ہو کرپینا سنت ہے

شہر مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں دیوار کعبہ سے کچھ فاصلے پر چار گز چوڑا اور69 گز گہرا حجر اسود کے سامنے اور جنوب مشرقی سمت میں ایک کنواں (چاہ)ہے جسے ’’چاہ زم زم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ چھوٹاسا کنواں پوری کائنات میں مشہور ہے، اسی کنویں کے پانی کو آب زم زم کہتے ہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ حضرت حاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ مقام پر اللہ کے حکم سے چھوڑ کر کے جانے لگے تو پانی کا ایک مشکیزہ ان کیلئے چھوڑ گئے۔ جب یہ تھوڑا سا پانی ختم ہو گیا تو سیدہ حضرت حاجرہ کو تشویش لاحق ہوئی وہ صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان بے تاب ہو کر سرگرداں رہیں۔ لیکن کہیں سے پانی کا سراغ نہ مل سکا۔ اس دوران اپنے خلیل کے اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں مبارک رگڑنے سے ایک چشمہ پانی کا پھوٹ پڑا۔

سیدہ حضرت حاجرہ دوڑتی ہوئی آئیں انہوں نے زم زم کہہ کر پانی کے اس چشمے کے اردگرد ریت کا بند باندھ دیا اور پانی کو بہنے سے روک دیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مدتوں کھدائی کے بعد بھی پانی کے ایک قطرے کی بھی امید نہیں تھی نہ ہی کی جا سکتی تھی مگر پروردگار حقیقی کا طریقہ یہی ہے کہ وہ مصائب پر صبر کرنے والوں کیلئے خلا ف توقع اسباب راحت مہیا فرما دیتا ہے۔ 

اضطراری کیفیت میں تحفظ ذات کی اس کوشش کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے اُم اسماعیل علیہ السلام پر، اگر وہ زم زم کہہ کر اس پانی کو نہ روکتیں تو آج زم زم ایک بہت بڑا بہتا ہوا چشمہ ہوتا (صحیح بخاری)۔

 زم زم کے معنی رک جانے کے ہیں مگر آب زم زم اس متبرک پانی کو کہا جاتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں مبارک رگڑنے سے جاری ہوا تھا اور یہ چار ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پہلے دن کی طرح آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔

 جب بنو جرہم کو نکالا گیا تو انھوں نے ریت ڈال کر اس چشمے کو بند کر دیا پھر کلا کے رئیس حضرت عبدالمطلب کو خواب میں اس متبرک اور مقدس کنویں کی نشاندھی کی گئی اور انھیں یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اسے پہلے کھداکر صاف کر لیں پھر خلق خدا کیلئے اس کو کھول دیں لہٰذا حضرت عبد المطلب نے کنواں کھدوا کر اس کی صفائی کروائی اور اس کے چاروں طرف منڈیر بنوائی۔ اس خدمت پر سیدنا حضرت عباس مامور تھے اور آج تک السقایا کا شعبہ انہی کی اولاد وں کے سپرد ہے۔ بعد میں آل عباس نے زم زم کے کنویں میں ایک طاقت ور ٹربائن نصب کروا کے حرم شریف میں جگہ جگہ ٹھنڈا آب زم زم واٹر کولرز میں زائرین کیلئے فراہم کر دیا۔ حرم پاک کی ترقی و توسیع کا کام دن رات جاری رہتا ہے مگر اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ زم زم کا کنواں کسی طرح بھی توسیع حرم کے کام سے متاثر نہ ہو مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مسجد الحرام کی تمام اوپر کی منزلوں میں بھی ٹھنڈا پانی مہیا کرنے کا معقول انتظام کیا۔

 آب زم زم کے شفائی کمالات 

آب زم زم کے شفائی کمالات پر بے شمار احادیث ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے آب زم زم کی بہت اہمیت ارشاد فرمائی۔ محدثین نے اپنی زندگی میں آب زم زم کے مشاہدات کا ذکر فرمایا۔ دنیا کے کیمیاداں ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر زم زم کے پانی میں کون سے ایسے اجزا شامل ہیں جو اسے پیاس کیلئے مسکن، بھوک کیلئے باعث تسکین اور بیماری کیلئے شفاء بنا دیتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ابتدائی طور پر مصری کیمیاء دانوں نے آب زم زم کے اجزائے کیمیائی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی سائنسدانوں نے بھی علیحدہ علیحدہ اور مختلف ادوار میں اس مقدس پانی کا تجزیہ کیا۔

آب زم زم شریف ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک پانی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کے جراثیم کا بھی خدشہ نہیں پایا جاتا۔ اس کا پانی صحت کے عالمی معیا ر کے مطابق ہے۔ آب زم زم کا ذائقہ معمولی سا نمکین ہے لیکن یہ پینے میں بے حد خوشگوار اور پاک وصاف ہے۔ اس پانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خون کی کمی کو دور کرتا ہے، دماغ کو تیز اور ہاضمے کی اصلاح کرتا ہے۔ زم زم کا ہزار ہا سال سے جاری رہنا اور اربوں انسانوں کا اس سے سیراب ہونا ایک عظیم معجزہ ہے۔

 سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ زم زم میں ہر بیماری کی شفاء ہے، طبرانی میں ارشاد سرور کونین ﷺ ہے ’’روئے زمین پر بہترین پانی زم زم ہے، جس میں کھانے کی طرح غذایت بھی ہے اور امراض کیلئے شفاء بھی ہے۔ اللہ کے محبوب پاک ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ زم زم کے پانی کو جس نیت سے پیا جائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی پاک ﷺ کو زم زم کا پانی پلایا اور انھوں نے کھڑے ہو کر پیا ۔

سبحان اللہ عام پانی کو بیٹھ کر پینے کا حکم ہے اور اس پانی کی تعظیم خود رسول کائنات ﷺ فرما رہے ہیں کہ اس کو کھڑا ہو کر پینا سنت ہے۔ اللہ سب کو وہاں جا کر زم زم سے اپنی پیاس بجھانے کی ہمت اور وسیلہ بنا دے۔ آمین 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔