ذبیح عظیم …سیدنااسماعیل علیہ السلام

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمدکریم خان


’’آپ (اس) کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کریں، بیشک وہ وعدہ کے سچے اور صاحبِ رسالت نبی تھے‘‘(سورہ مریم: 54)اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کی زندگی مبارکہ میں بہت سے انعامات فرمائے،رحمت خداوندی کاحقدار اورصالحین میں شمارفرمایا زم زم کے چشمے کاآپ ؑکی زندگی مبارکہ کے ساتھ گہراتعلق ہے ’’اے بیٹے میں نے خواب دیکھاکہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتا تیری کیا رائے ہے، کہا اے ابا جان! آپ کو جو حکم ہے وہ پورا کیجیے، مجھے انشا اللہ صبر کرنے والا پائیں گے‘‘( الصافات)

انسان کاجب عالم ارواح سے عالم فنا میں ورود ہوا تو عنایت ربانی کا ایک خاص کرم یہ ہوا کہ خلاق عالم عزوجل نے اپنے خاص بندوں کا انتخاب کیا جن کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفرازکیا۔ یہ انبیاء و رسل بعض دفعہ یکے بعد دیگرے، بعض دفعہ ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں اور قوموں تک تعلیم و تربیت کا پیغام ربانی بندوں تک پہنچاتے رہے۔ اس پیغام میں ایک قدر مشترک تھی یعنی شرک کی نفی اور توحید و رسالت کا اقرار۔

انبیاء کرام علیہم السلام ہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں دوسرے بندوں کی بہ نسبت قرب خداوندی زیادہ نصیب ہوتا ہے۔ ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک حضرت سیدنااسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام ہیں جو کہ جدالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے اور نبی آخرالزماں کے جداعلیٰ ہیں۔آپ علیہ السلام کا ذکر قرآن پاک کی متعدد سورتوں میں موجودہے جبکہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 125 تا 127، سورۃ الانعام کی آیت نمبر86، سورۃ مریم کی آیت نمبر55،54، سورۃ الانبیاء کی آیت 86،85، سورۃ الصافات کی آیت نمبر 101تا 107 اورسورہ ص کی آیت نمبر48 میں تفصیلاً ملتا ہے۔آپ ؑکی سیرت کے اہم گوشوں کو اس مضمون میں اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔

ولادت حضرت اسماعیل  ؑ

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب عراق سے ہجرت کر کے مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے اور جس مقام کو آپ ؑنے اپنا مسکن بنایا اسے الخلیل، حبرون، مسجد ابراہیم کہا جاتا ہے۔ اس وقت آپ ؑکی عمر 86 سال ہو چکی تھی،آپ ؑکے سر میں سفیدی (بڑھاپا)پھیلنے لگی تھی تو اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی: ’’اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما، پس ہم نے انہیں بڑے بُرد بار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی‘‘ (الصافات: 100-101)۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ سے نکاح کیا جو بادشاہ سلمان بن عنوان کی بیٹی تھیں اور انہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکو اولاد دی،سب سے پہلا بیٹا جو پیدا ہوا وہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام تھے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’جب سیدہ ہاجرہ امیدسے ہوئیں تو خود کو بڑا سمجھنے لگیں، سیدہ سارہ علیہاالسلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شکایت کی،جب سیدہ ہاجرہ کو پتہ چلا تو وہاں سے جانے کیلئے ایک چشمے کے پاس گھبرائے ہوئے بیٹھی تھیں کہ ایک فرشتہ نے آ کر کہا:مت ڈرو بے شک اللہ تعالی اس لڑکے سے،جسے تو نے پیٹ میں اٹھا رکھا ہے خیر پیدا کرے گا،اس کا نام اسماعیل ؑرکھنا اور انہیں واپس جانے کا حکم دیا(البدایہ و النہایہ، ج1، ص176)۔

اسم گرامی ولقب

علامہ محمودبن عبداللہ آلوسی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر125 کے تحت لکھتے ہیں :اسماعیل عجمی نام ہے، عربی میں اس کا معنی ’’اللہ کا فرمانبردار‘‘ ہے۔ اسماعیل کی وجہ تسمیہ کے متعلق لکھتے ہیں:جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اولادکیلئے دعا مانگتے تو اس کے بعدکہتے ’’اسمع ایل‘‘یعنی اے اللہ !میری دعا سن لے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا تو اس دعا کی یادگارمیں آپ ؑنے اس کا نام اسماعیل رکھا (تفسیر روح المعانی، ج1، ص 378) ۔

آپ علیہ السلام کالقب ذبیح اللہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکے والدگرامی کوانہیں ذبح کرنے کا حکم دیااورآپ ؑنے فرمان باری تعالیٰ سن کربغیرکسی ترددکے خود کوقربان ہونے کیلئے پیش کردیا۔علامہ ابن کثیرلکھتے ہیں: حضرت اسماعیل ؑ حضرت ابراہیمؑ کی پہلی اولادہیں اورتمام مسلمانوں اوراہل کتاب کا اتفاق ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام سے بڑے ہیں (تفسیر ابن کثیر، ج7، ص23)۔

بعثتِ اسماعیل علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قوم عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا۔جنہیں آپؑ نے وعظ و تبلیغ فرمائی، کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ کافر ہی رہے (الروض الانف، ج1، ص42)۔آپ ؑ پر کوئی کتاب نازل ہوئی نہ کوئی صحیفہ، بلکہ آپؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام پرنازل ہونے والے صحیفوں کی اتباع کرتے ہوئے احکام الٰہی کی تبلیغ کرتے،ساتھ ساتھ بعض احکامات اللہ تعالیٰ کی جانب سے بذریعہ وحی آپ علیہ السلام پر نازل ہوئے۔قرآن مجیدمیں ہے: (اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی (النساء: 163)۔

اس وحی پر ایمان لانے کے متعلق قرآن مجیدمیں ہمیں حکم ہوا: (اے مسلمانو) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے  اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی،  اس پر (بھی) جو ابراہیم، اسماعیل، اسحٰق، یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی (البقرہ: 136)

اولادِ اسماعیل ؑ

آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بارہ بیٹوں سے نوازا، ان کی اولادمیں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت عطا فرمائی کہ وہ بہت جلدپورے عرب میں پھیل گئے، یہاں تک کہ مغرب میں مصر،جنوب کی جانب سے یمن اورشمال کی طرف سے ملک شام تک ان کی بستیاں اور خیمے جا پہنچے۔

نبی کریمﷺکاانتخاب

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں انتخاب نبی آخرالزمانﷺکاخصوصی اہتمام کیا گیا۔ حدیث مبارکہ میں ہے، حضرت واثلہ بن اسقعؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کوچن لیا،آپ ؑکی اولادسے کنانہ کوچنا،کنانہ سے قریش کومنتخب فرمایا، قریش سے بنی ہاشم کواوربنی ہاشم سے مجھے چن لیا (مسند احمد:16984)۔

اوصاف حمیدہ

اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کونہایت ہی عمدہ اوراعلیٰ اوصاف کامالک بنایاان میں سے سات کاذکرقرآن مجیدمیں ملتاہے:

(1،2)وعدہ کے سچے اورغیب کی خبریں دینے والا رسول: قرآن کریم میں ہے: آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں، بیشک وہ وعدہ کے سچے اور صاحبِ رسالت نبی تھے (سورہ مریم:54)۔

(3)بہترین فردِ معاشرہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: آپ اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل (علیھم السلام) کا (بھی) ذکر کیجئے، وہ سارے کے سارے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے (سورہ ص)۔

(4)پسندیدہ بندہ: آپ ؑاپنی اطاعت و اعمال، صبرواستقلال اوراپنی عادات وخصائل کی پاکی کی وجہ سے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی پسندیدہ تھے ،ارشادباری تعالیٰ ہے: وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا) (مریم 55)۔

(5)صابر: آپ علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے صابرین کے گروہ میں شامل فرمایا،ارشادباری تعالیٰ ہے: اسماعیل ،ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھے (الانبیاء : 85)۔

(6)نمازوزکوٰۃ کی تلقین کرنے والے اور مقام رضاپرفائز: آپ ؑاپنے گھراورقبیلہ والوں کو نماز قائم کرنے اورزکوٰۃ ادا کرنے کاحکم دیاکرتے اور مقام رضا پر فائز تھے، ارشادباری تعالیٰ ہے: وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا) (مریم :55)

(7)بیت اللہ کے رکھوالے: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکیداًبیت اللہ کوصاف رکھنے اوراس کی دیکھ بھال کا حکم دیا،قرآن مجیدمیں ہے: ’’ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک (صاف) کر دو‘‘ (البقرہ:125)۔

یہ بات واضح ہے کہ آپ ؑ کی حیات مستعار کے واقعات صبر کی اعلیٰ مثالوں میں سے اہم ترین واقعات وادی غیر ذرع میں رہنا اور فرمان خدا وندی پر خود کو قربان ہونے کیلئے پیش کرناہے۔

انعامات خداوندی

اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکی زندگی مبارکہ میں بہت سے انعامات فرمائے جن میں صرف تین کا ذکر حسب ذیل ہے۔ (1،2)رحمت خداوندی کا حقدار اورصالحین میں شمار: اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کواپنی رحمت خاصہ میں شامل کرتے ہوئے اپنے مقربین خاص نیک و کاروں میں شمار کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ نیکو کاروں میں سے تھے (الانبیاء: 86)۔ (3) تمام جہان والوں پر فضیلت: اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو آپؑ کے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی ، قرآن مجید میں ہے: اسمٰعیل، الیسع ،یونس اور لوط (علیھم السلام کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا)، اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی‘‘(الانعام:86)۔

قربانی اسماعیل علیہ السلام

حضرت اسماعیل ؑ کی حیات مبارکہ کا عظیم واقعہ آپ ؑکی قربانی کاہے : ایک دن حضرت اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا :کہ اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، انبیاء علیہم السلام کی خواب حق اور وحی الٰہی ہوتے ہیں، لہٰذا تو بتا تیری کیا رائے ہے؟ والد محترم کی بات سنتے ہی حضرت اسماعیل ؑ نے عرض کی : اے ابا جان !آپؑ وہ کیجیے جس کا آپؑ کو حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپؑ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ بیٹے کے جواب کے بعد حکم الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کیلئے حضرت ابراہیمؑ بیٹے کے ہمراہ منیٰ پہنچے اور ایک جگہ پر حضرت اسماعیل ؑ کع پیشانی کے بل لٹایا اور پتھر پر رگڑ کر چھری تیز کرنے لگے۔چھری تیز ہو جانے پر حضرت ابراہیم ؑ اٹھے اور اپنے محبوب بیٹے کے گلے پر پوری قوت سے چھری چلا ئی لیکن چھری نے حضرت اسماعیل ؑ کا گلا نہیں کاٹااورنہ ہی ان کے گلے پر خراش آئی،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :کہ ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ اس کے بعد حضرت اسماعیل ؑ کے فدیہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیجا جو آپ ؑکی جگہ ذبح کیا گیا۔

قربانی یادگارابراہیم ؑ

عید الاضحی کے موقع پر کی جانے والے قربانی حضرت ابراہیم ؑ کی اسی قربانی کی یادگار ہے اور آپ ؑ کی یہ سنت دین اسلام میں صاحب نصاب پر وجوب کادرجہ رکھتی ہے۔ حضرت زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا :تمہارے والد حضرت ابراہیم ؑکی سنت ہیں، صحابہ کرامؓنے عرض کیا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ ارشاد فرمایا :ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے،صحابہ کرامؓنے مزیدپوچھا: اور اون میں؟ ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ہے (ابن ماجہ: 3127)۔

نکاح وسیدہ ہاجرہ کی وفات

آپؑ انتہائی ذہین، ہونہار اور خوبرو نوجوان ہونے کے ساتھ تقویٰ وطہارت کا منبع تھے۔ آپ ؑکے اوصاف و خصائل دیکھ کر قبیلہ جرہم نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے نکاح کر دیا۔نکاح کے کچھ عرصہ بعدآپ ؑکی والدہ کاوصال ہوا۔

آب زم زم کی فضیلت

زم زم کے چشمے کاآپ ؑکی زندگی مبارکہ کے ساتھ گہراتعلق ہے جوآج تک بحکم الٰہی جاری ہے۔اس چشمہ کے پانی کی فضیلت اور پر بہت سی احادیث ملتی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک زمزم کا پانی برکت والا ہے، یہ پیٹ بھرنے والا کھانا ہے(صحیح مسلم: 6359) ۔ 

حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:آب زمزم جس مراد سے پیا جائے اسی کیلئے ہے ،اگر تم حصول شفا کیلئے اسے سے پیو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں شفا عطا کریگا، اگر تم کسی چیز سے پناہ مانگنے کیلئے اسے پیو گے تو اللہ تعالی تمہیں پناہ دے دے گا، اگر تم اس لیے زمزم پیو گے کہ تمہاری پیاس ختم ہو جائے تو اللہ تعالی اسے ختم فرما دے گا۔ (مستدرک حاکم: 1739)

وفات وتدفین

ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد السہیلی لکھتے ہیں :حضرت اسماعیل علیہ السلام  نے اپنی زندگی کی 130 بہاریں دیکھ کر وفات پائی اورمقام حجر(حطیم کعبہ) میں اپنی والدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی قبر انورکے قریب دفن ہوئے۔ (الروض الانف، ج1، ص40)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭