سوء ادب

دو لاٹریاں ایک شخص کی ایک لاکھ روپے کی لاٹری نکل آئی تو منتظمین نے اسے کہا کہ ہم تمہیں لاٹری کی رقم اس شرط پر ادا کریں گے اگر تم اپنی اہلیہ سے دست بردار ہو جاؤ۔ اس پر اس شخص نے ہنسنا شروع کر دیا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں ہنسا اس لیے ہوں کہ خوشی کا اظہار کر رہا ہوں کہ میری ایک ساتھ دو لاٹریاں نکل آئی ہیں یعنی ایک لاکھ روپے بھی اور پرانی بیوی سے نجات بھی حاصل ہو گی۔
کیا بنے گا ؟
ایک شخص کی بیوی بیمار پڑ گئی جب اس کی حالتِ غیر ہونے لگی تو اپنے شوہر سے بولی: ’’ میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا ؟‘‘
جس پر شوہر بولا : ’’ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر تم نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا ؟‘‘
پریاں اترتی ہیں
یہ ہمارے پسندیدہ شاعر وحید احمد کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے رومیل ہاؤس آف پبلیکیشنز اقبال روڈ راولپنڈی نے شائع کیا ہے۔
انتساب مومنہ وحید کے نام ہے کتاب کا کوئی دیباچہ اور پیش لفظ نہیں ہے ابتدا میں رومی کا یہ شعر درج ہے :
بہ زیرِ کنگر کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار ویزداں گیر
کتاب ہذا ارشد ملک کی زیرِ اہتمام اور سید وسیم عباس کی زیرِ نگرانی شائع ہوئی ہے۔ جس کے پروجیکٹ کوارڈینٹر عادل حسین مغل ہیں، کمپوزنگ اور سرِ ورق خاوری کا ہے اور قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے ۔
تخلیقی سفر کے عنوان سے مصنف کی دیگر کتابوں کی فہرست درج ہے جس کے مطابق ’’شفافیاں‘‘ (نظم، نظم نامہ )، نظم زینو، ناول مندری والا ۔
ابتداء حمد سے کی گئی ہے۔ نظموں کی کل تعداد 30 ہے، پسَ سرورق شاعر کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ اب آخر میں اسی مجموعے میں سے یہ نظم:
Sleeping with
the enemy
پھنکارتی ناگن کے پھن پہ سر کو رکھے
رات بھر سویا رہا تھا میں
نہ جانے سرسراتی نیند تھی
یا ہسہساتی بے حسی
نیلی غشی
یا زہر مہرہ خامشی تھی وہ
جہاں تک یاد بڑتا ہے ، سلگتی نیند ہی تھی وہ
وہ میرے جسم پر کنڈل گھما کے
گیلا لچکیلا شکنجہ کس کے
اک بے ساختہ انگڑائی لیتی
تو میرے پنجرے کی چْولیں ٹوٹ جاتی
اور چٹختی ہڈیاں پھٹتے ہوئے عضلات میں چبھ کر
مرے اندر سے ہلتے ماس سے باہر نکل کر
اس کے کْنڈل میں اترتیں
تو شکنجہ توڑ کر وہ گومتی شْوکر پہ اپنا پھن اٹھا کر بیٹھ جاتی
اور مکناتیسی آنکھوں سے عمل کرتی
مرا ٹوٹا ہوا ہر جوڑ اک جھٹکے سے جڑتا
جس طرح دو آتشہ بندوق کی نالی کے
روزن کارتوسوں کی غزا کھاتے ہیں
اور لٹکی ہوئی بندوق کی نالی اسی جھٹکے سے جڑتی ہے
وہی پھر ہو رہا تھا
کہ میں پھنکارتی ناگن کے پھن پہ سر کو رکھے سو رہا تھا
آج کا مقطع
دور ہے سبزہ گاَہِ معنی ، ظفر
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک