بجٹ 2025-26
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کا مجموعی حجم 17.57 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے جو مالی سال2024-25 ء کے 18.9 کھرب روپے کے مقابلے میں 7% کم ہے ‘ جبکہ مالی خسارہ 3.9 فیصد تک محدود رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور یہ بھی مالی سال2024-25 ء کے خسارے( 5.9فیصد) سے نمایاں طور پر کم ہے ۔یہ کمی اخراجات میں کمی اور اقتصادی نظم و ضبط کے عزم کی عکاس ہے‘ جس سے قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط کی تعمیل ممکن ہو پائے گی۔
بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 2.55کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں جومالی سال2024-25 ء کے 2.12کھرب روپے کے مقابلے میں 20 فیصدزیادہ ہیں ۔ بھارت کی جانب سے درپیش چیلنجز اور ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر تھا۔واضح رہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ اب بھی تقریباً نو گنا کم ہے ۔بجٹ میں مجموعی محصولات کا ہدف 19.28 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں سے ٹیکس سے محصولات کا ہدف 14.1 کھرب روپے رکھا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال کے ریونیو ہدف سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ چھ لاکھ تک کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ‘ چھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ پر‘ چھ لاکھ سے زائد آمدنی پر ایک فیصد ٹیکس لاگو ہو گا‘سالانہ 12 سے 22لاکھ تک تنخواہ لینے والوں کو12لاکھ سے زائد آمدنی پر 11فیصد ٹیکس دینا ہو گا‘ جبکہ 22سے 32لاکھ تک سالانہ تنخواہ لینے والوں پر 22لاکھ سے زائد آمدنی پر 23فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔بجٹ میں تمام گریڈز کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے ‘ریٹائرڈ ملازمین کے لیے پنشن میں 7 فیصد اضافہ منظور ہوا ہے اور معذور ملازمین کے کنوینس الاؤنس میں اضافہ کر کے ماہانہ چھ ہزار روپے کیا گیا ۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے معیشت کی نمو کا ہدف 4.2 فیصد رکھا ہے، حالانکہ مالی سال2024-25ء کی شرح نمو 2.7 فیصدرہی جو 3.6 کے ہدف سے خاصی کم ہے ۔بجٹ میں قرضوں پر سودکی ادائیگیوں کے لیے 8.21 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔پٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر 2.5 روپے کاربن لیوی نافذ کرنے کی منظوری دی گئی ہے جسے آئندہ سال سے 5 روپے پر لے جانے کا منصوبہ ہے ۔الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے ٹیکس میں مراعات متعارف کرائی گئی ہیں ۔یہ اقدامات توانائی کے شعبے میں پائیدار ترقی اور ماحول دوست پالیسیاں اپنانے کی سمت اشارہ کرتے ہیں۔
اہم منصوبے:
مالی سال 26-2025 کے ترقیاتی پروگرام میں انرجی سیکٹر کی 47 ترقیاتی سکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کوبہتر بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری۔ مورو- رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائد اعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ اسٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
٭بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرزپرAsset Performance Management System (APMS) کی تنصیب کے لیے 1.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ IESCO میں ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے ،حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔
٭اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔ ان وسائل سے جاری سکیموں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔
٭سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے مالی سال 26-2025ء میں 31 جاری سکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭سکھرحیدرآباد موٹروے تقریباً: 15 ارب روپے کی لاگت سے شروع کی جائے گی
٭تھر کول ریلوے کنکشن کے لیے 7 ارب روپے
٭گوادر بندرگاہ اور شپ بریکنگ پراجیکٹس وغیرہ
آبی منصوبے:
نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم و نسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن میں واٹر سٹوریج میں 10 ملین ایکٹر فٹ کا اضافہ، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی، پانی کے معقول استعمال میں 30 فیصد اضافہ اور سندھ طاس آبپاشی نظام کی رئیل ٹائم ڈسچارج مانیٹرنگ شامل ہیں۔ گزشتہ سال59 آبی منصوبوں میں سے 34 منصوبے مکمل کیے گئے جن کی مجموعی لاگت295 ارب روپے رہی۔ موجودہ بجٹ میں آبی وسائل ڈویژن کے لیے کل133 ارب روپے مختص کئے گئے۔ ان میں سے34 ارب جاری آبی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کے لیے 102 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے 95 ارب روپے 15 اہم منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب سے تحفظ، انڈس بیسن پر ٹیلی میٹری سسٹم اور پانی کے تحفظ سے متعلق ہیں۔
٭دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے، کراچی واٹر سپلائی (K-iv) منصوبے کے لیے 3.2 ارب روپے، کلری باغار فیڈر کینال کی lining کے لیے 10 ارب روپے اور انڈس بیسن سسٹم پر ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 4.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پٹ فیڈر کینال کے لیے 1.8 ارب روپے اور کچھی کینال کے لیے 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آواران، پنجگور، گروک، اور گیشکور ڈیمز کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مالی سال2025-26 ء چیلنجز:
٭مالی خسارہ: حالانکہ 3.9% کا مالیاتی خسارے کا ہدف مناسب ہے مگر قرضوں اور سود کی ادائیگی مالیاتی وسائل پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہے‘ اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے۔
٭ٹیکس بیس میں اضافہ:ٹیکس بیس میں اضافہ ناگزیر ہے، خاص طور پر غیر رسمی شعبوں میں۔تاہم گزشتہ برسوں میں باوجود دعوؤں کے اس ضمن میں حکومتی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔
افراط زر: اگرتوانائی کی عالمی قیمتیں بڑھیں تو 7.5% کا افراط زر کاہدف خطرے میں پڑ سکتا ہے۔مالیاتی منصوبہ سازوں کو یہ امکان مدنظر رکھنا ہو گا۔
بہرکیف وفاقی بجٹ 2025-26 ء یہ اشارہ دیتا ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔خواہ معاشی نمو ہو، افراط زر کی روک تھام یا قرضوں کے دباؤ میں کمی‘ حکومت نے بڑی مہارت سے قدرے ٹیکس چھوٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے عوام دوست چہرہ پیش کیا ہے‘ مستقبل کا انحصار انہی اقدامات کی کامیابی اور عالمی اقتصادیات کے ساتھ تال میل پر ہو گا۔