غصے کا علاج
غصیلا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں گیند، لہٰذا غصہ کاعلاج کرناضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غصے کے سبب شیطان سارے اعمال برباد کروا ڈالے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ’’غصہ کا علاج اور اس باب میں محنت و مشقت برداشت کرنا فرض ہے ،کیونکہ اکثر لوگ غصے ہی کے باعث جہنم میں جائیں گے‘‘۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ، ’’اے آدمی! غصہ میںتو خوب اچھلتا ہے، کہیں اب کی اچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے‘‘۔ مفتی احمد یار خان ؒکہتے ہیں ’’غضب یعنی غصہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع (دور)کرنے پر ابھارے‘‘ ۔
غصے کا عملی علاج اس طرح ہوسکتا ہے کہ غصہ پی جانے اور درگزر سے کام لینے کے فضائل سے آ گاہی حاصل کرے۔ جب کبھی غصہ آئے ان فضائل پر غور و فکر کرکے غصے کو پینے کی کوشِش کرے۔ بخاری شریف میں ہے، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کی، یارسول اﷲ،مجھے وصیت فرمائیے۔ ارشاد فرمایا ’’غصہ مت کرو‘‘ اس نے باربار یہی سوال کیا ۔ جواب یہی ملا ’’ غصہ مت کرو‘‘۔ حضر ت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں،میں نے عرض کی، یارسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ سرکارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ غصہ نہ کرو، تو تمہارے لئے جنت ہے‘‘۔ بخاری میں ہے ’’ طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جوغصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے‘‘ ۔
جب ہم بردباری کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لیں ، ہم اپنے اندر پائی جانے والی ایک مخصوص قوت کوپہچان لیں،اور اس قوت کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم کر لیں تو ہم ایک اچھے آدمی بن سکتے ہیں۔یہ قوت غصہ کی قوت ہے۔ غصہ کو ضبط کر جانے والے لوگ اور لوگوں کو معاف کرنے والے لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ یعنی جس کسی شخص کو تکلیف پہنچائی جائے یا مشقت پیش آئے تو وہ اشتعال انگیزی اور انتقام کی بجائے فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے برداشت کرے اور درگزر کر دے۔ میاں بیوی میں بھی زیادہ تر اختلافات غصے ہی کی وجہ سے ہوتے ہیں غصہ ہی گھرتوڑنے کی بڑی وجہ بنتا ہے اس لئے میاں بیوی بھی اپنے غصے کو قابو میں رکھیں۔ اگر شوہر غصہ میں ہو توبیوی خاموش رہے۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد انہیں اپنی بات نہایت ہی شیریں لہجہ میں سمجھائیں تاکہ وہ آپ کے موقف کو اچھی طرح سمجھ سکے ، اس طرح بات کبھی نہیں بڑھے گی۔
کَنزُالْعُمّال میں ہے ’’سرکارمدینۂ منورہ، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ ﷺکا فرمان ہے’’جوغصہ پی جائے گا حالانکہ وہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرما دے گا‘‘۔
غصے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ غصہ لانے والی باتوں کے موقع پر بزرگانِ دین کے طرزعمل اور ان کی حکایات کو ذہن میں دوہرائے ۔ کیمیا ئے سعادت میں امام محمد غزالیؒ نقل فرماتے ہیں ’’کسی شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے سخت کلامی کی۔ آپؓ نے سرجھکا لیا اور فرمایا ’’کیاتم یہ چاہتے ہوکہ مجھے غصہ آ جائے اورشیطان مجھے تکبراور حکومت کے غرور میں مبتلا کرے اور میںتم کو ظلم کا نشانہ بنائوں اوربروزقیامت تم مجھ سے اِس کا بدلہ لو مجھ سے یہ ہر گز نہیں ہوگا‘‘۔
کسی شخص نے حضرت ِسلمان فارسی ؓکو براکہا۔ آپ ؓ نے فرمایا ’’اگر بروزقیامت میرے گناہو ں کاپلہ بھاری ہوا تو جو کچھ تم نے کہا میں اُس سے بھی بدتر ہوں اور اگر میرا وہ پلہ ہلکا ہے تو مجھے تمہاری بری بات کی کوئی پروا نہیں‘‘ ۔
غُصّے کی تباہ کاریوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھئے کیونکہ غصہ ہی اکثر دنگافساد، دوبھائیوں میں افتراق، میاں بیوی میں طلاق، آپس میں منافرت اورقتل و غارت کا موجب ہوتا ہے۔جب کسی پر غصہ آئے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیے ’’مجھے دوسروں پر اگر کچھ قدرت حاصل بھی ہے تو اس سے بے حد زیادہ اللّٰہ عَزَّوَجَل مجھ پر قادر ہے، اگر میںنے غصے میں کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کر ڈالی توقیامت کے روز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے غَضَب سے میںکس طرح محفوظ رہ سکوں گا؟‘‘۔ مسند ابو داود میں نقل ہے کہ شہنشاہِ خیرالانامﷺنے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضر ہوا توحضورانورﷺ کے دست منور میں مسواک تھی فرمایا ’’اگر قیامت میں انتقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اِس مسواک سے مارتا‘‘۔ دیکھا آپ نے، شہنشاہ خیرالانام ﷺ کبھی بھی اپنے نَفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا مسلمان ہے کہ اگر نوکر کسی کام میں کوتاہی کردے تو بری باتوںکی بوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ پر اتر آتا ہے ۔
مسلم شریف میں ہے ، حضرتِ ابو مسعود انصا ریؓ فرماتے ہیں :میں اپنے غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی، ’’ اے ابو مسعود! تمہیں علم ہونا چاہیے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہواللہ تعالیٰ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے، میںنے پیچھے مڑ کر دیکھاتو وہ رسول اﷲﷺتھے۔ میں نے عرض کی ’’یارسول اﷲ ﷺ، یہ اللہ کی رضا کیلئے آزاد ہے‘‘۔ سرکارمدینہ نے فرمایا’’اگر تم یہ نہ کرتے توتمہیں دوزخ کی آگ جلاتی‘‘۔
حدیث پاک میں ہے ’’جو شخص اپنے غصے کو روکے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا‘‘۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اﷲ تعالیٰ(قیامت کے دن ) اُس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا، اور اُس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو ، جو تم سے قطع تعلق کرے تم اُس سے ملاپ کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُس کو معاف کردو‘‘۔ کاش!ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطرغصہ کر نا ہی چھوڑ دیں ۔
’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے ،مولانا شاہ احمد رضا خان کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مبری باتوں سے بھرپور تھے۔ معتقدین برہم ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ شاہ احمد رضا خان نے فرمایا : ’’جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیریں تقسیم کردو ،پھربرا لکھنے والوں پرمقدمہ دائر کردو‘‘۔
یہ غلط مشہور ہے کہ ’’غصہ حرام ہے ‘‘غصہ ایک غیر اختیاری امر ہے، انسان کو آہی جاتا ہے، اِس میں اس کاقصور نہیں، ہاںغصہ کا بے جا استعمال براہے ۔ بعض صورتوں میںغصہ ضروری بھی ہے مثلًا جہاد کے وقت اگرغصہ نہیں آئے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنوں سے کس طرح لڑیں گے ۔بہر حال غصے کا ’’ازالہ‘‘(یعنی اس کا نہ آنا)ممکن نہیں ’’امالہ‘‘ہونا چاہئے یعنی غصہ کا رخ دوسری طرف پھر جانا چاہئے ۔حدیثِ پاک میں ہے ،’’جس شخص نے غصہ ضبط کرلیاباوجود اِس کے کہ وہ غصہ نافذ کرنے پرقدرت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے دل کوسکون وایمان سے بھردے گا‘‘، یعنی اگر کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچ گئی اور غصہ آگیا یہ بدلہ لے سکتا تھامگر محض رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی خاطر غصہ پی گیا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کوسکون قلب عطا فرمائے گا اور اس کا دل نور ایمان سے بھردے گا۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات غصہ آنا مفید بھی ہے جبکہ ضبط کرنا نصیب ہو جائے۔
جس کو غصہ گناہ کرواتا ہو اُسے چاہئے کہ ہرنماز کے بعد 21 بار’’بِسم اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیم‘‘پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے ۔کھانا کھاتے وقت تین تین بار پڑھ کرکھانے اور پانی پر بھی دم کرلے۔ چلتے پھرتے کبھی کبھی یا اللّٰہُ یا رحمٰنُ یا رحیمُ کا ورد کرے۔ چلتے پھرتے یا اَرحَمَ الرّاحِمِین پڑھتا رہے۔
غصہ آنے پریہ ذہن بنایاجائے کہ کیوںنہ میں معاف کر کے ثواب کا حقدار بنوںاور ثواب بھی کیسا زبردست کہ ’’ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ پوچھا جائے گا کس کیلئے اجر ہے؟ کہا جائے گا ’’ان لوگوں کیلئے جو معاف کرنے والے ہیں‘‘۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔