قوتِ برداشت

سب محلے والوں نے سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے واسطے صاحب استطاعت بکرے، دنبے تو کہیں گائے وغیرہ بھی لے لیے۔
انکل چھمی نے بھی اپنی بیگم کی فرمائش سے ایک بکرا خرید کر اپنے گھر کے صحن کے ایک طرف باندھا اور اپنی قائد ٹوپی اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے چارپائی پر اپنی بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے کہنے لگے ’’میں چاہتا ہوں کہ عیدکی نماز کی ادائیگی اور بکرے کی قربانی کے بعد جب کلیجی بنے تو سب محلے والوں کو بلائیں تاکہ مل بیٹھ کر کھائیں۔
جس پر ان کی بیگم گویاہوئیں ’’جی بالکل درست کہا،تمہارا صلاح مشورہ سر آنکھوں پر‘‘۔ جزاک اللہ انکل چھمی خوش رنگ آنکھوں سے بولے۔ ابھی یہ سب گفتگو ہوہی رہی تھی کہ یکا یک لڑنے کی آواز آئی۔
انکل چھمی قائد ٹوپی پہنے اپنی وضع قطع کو دست کر کے باہر آئے تو دیکھا دومحلے دار ظہیر اور اکرم لڑ رہے تھے۔ان دونوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے اور دونوں نے اپنے بکرے ایک ساتھ باندھ رکھے تھے۔ اکرم کا بکرا ساتھ کھڑے ہونے کی بنا پر ظہیر کے بکرے کے پٹھے کھانے لگا۔جس کی وجہ سے ظہیر جو کہ غصہ کا تیز مانا جاتا ہے نے کہا کہ تم اپنا بکرا کہیں اور باندھو۔ تمہارا بکرا میرے بکرے کا چارہ کھا رہا ہے۔
انکل چھمی جو پیچھے کھڑے لڑائی کا نظارہ لے رہے تھے نے آگے بڑھ کر ظہیر کو بارعب آواز میں کہا ’’کیا اس زمین پر تمہارا نام لکھا ہے‘‘؟
ظہیر بولا’’نہیں مگر یہ اپنا بکرا یہاں سے لے جائے۔میں یہ برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔
انکل چھمی حیرانگی سے دیکھتے ہوئے بولے ’’لو جی جب صاحبِ استطاعت ہو کر قربانی کر رہے ہو جو کہ ہمیں صبر و برداشت،اپنے نفس پر قابو پانے اور امن و رواداری کا درس دیتا ہے۔ تم قربانی بھی کر رہے ہو اور برداشت کا درس بھی نہیں اپنا رہے‘‘۔
ظہیر بولا ’’تو چاچا اسے کہو نہ وہ اپنے بکرے کو کہیں اور باندھے‘‘۔
اکرم کہنے لگا ’’ٹھیک میں لے جاتا ہوں‘‘ ۔ اس کو بکرا لے جاتا ہوا دیکھ کر انکل چھمی کے ذہن میں خیال آیا کہیں اس طرح عید بھی سونی سونی نہ گزرے۔
انکل چھمی ظہیر کو کہنے لگے ’’یار! یہ بے زبان جانور ہے۔ اس طرح تم قربانی کر رہے اور اپنے ہمسائے پڑوسی سے لڑ رہے ہو۔ یہ کیا بات ہوئی۔ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے دین میں بہت زیادہ ہمسایوں کے حقوق ہیں۔ اب اکرم اتنامالی لحاظ سے مضبوط نہیں مگر پھر بھی وہ اسلامی حق حقوق و فرائض پورے کرتا ہے لہٰذا تم اس کا احساس کرو۔ اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کرو۔
ظہیر کی آنکھوں میں ندامت جھلکی اور بولا کہ ’’واقعی میں تو بلاوجہ بے زبان جانور کی وجہ سے نہ وہ مارتا اور نہ لڑتا ہے صرف چارا کھاجاتا ہے اور جانور تو کچھ بھی کرجاتے ہیں۔ نہیں نہیں اس سرزمین پر میرا نام بھی نہیں لکھا جو میں اس سے لڑوں،میں معافی مانگتا ہوں‘‘۔
انکل چھمی اور سب محلے والے ظہیر کے ساتھ اکرم کے گھر گئے تو ظہیر نے معافی مانگی تو اکرم نے معاف کرتے ہوئے ظہیر کو گلے لگا لیا ، سب بے حد خوش ہوئے۔
انکل چھمی سب کے سامنے بولے ’’مل جل کر پیار اور رواداری محبت سے رہنا اور صبر و براشت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا اور اپنے نفس کو شیطانیت سے پاک رکھنے کا نام ہی قربانی ہے۔ لہٰذا سب بچوں اور بڑوں کو عید مبارک۔سب نے کہا عید مبارک۔
اتنے میں اکرم کے بکرے نے زور دار چھینک مارنے کے ساتھ آوازیں نکالیں تو انکل چھمی ایک دم ڈر گئے اور ان کی ٹوپی نیچے گر گئی۔ سب بے اختیار ہنس پڑے اور اکرم اور ظہیر نے ان کو ٹوپی پہنائی تو انہوں نے دونوں کو گلے لگالیا اور سب محلے داران کو کلیجی کھانے کی دعوت بھی دی۔سب نے اس دعوت کو قبول کیا۔