عظیم شاہسوار (دوسری قسط)

تحریر : اشفاق احمد خاں


شاہسوار نے ایک لمحے کی بھی دیر کئے بغیر اپنے لشکر میں سے تیس سرفروش منتخب کئے اور ان کو ہدایت کی۔’’تم مجھے عقب کے حملوں سے محفوظ رکھنا، میں جر جیر تک پہنچ کر اس کا خاتمہ کر دوں گا‘‘۔

ان تیس سرفروشوں نے اس کے عقب میں حفاظتی جال بن لیا۔ وہ شاہسوار دشمن کی صفوں میں جا گھسا، اس کے ہاتھ خالی تھے، تلوار نیام میں تھی۔ اسے یوں خالی ہاتھ، دلیری کے ساتھ آگے بڑھتے دیکھ کر مخالف فوج اور جر جیر نے یہ جانا کہ شاید یہ کوئی قاصد ہے، اس لئے کسی نے اس کا راستہ نہ روکا، اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے جر جیر تک پہنچ گیا۔

قریب پہنچتے ہی اس نے تلوار نیام سے نکال لی۔ تب جرجیر پر یہ بھید کھلا کہ یہ قاصد تو ہے لیکن موت کا قاصد، اس کی زندگی کا دشمن ہے۔ موت کو اتنا قریب دیکھ کر جر جیر پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس شاہسوار کی جرأت اور دلیری نے اس پر ہیبت طاری کر دی۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو، اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور بھاگ نکلا۔ شاہسوار بھی اس کے تعاقب میں تھا۔ کچھ ہی دور جاکر اس نے جر جیر پر تان نیزہ کھینچ مارا، وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس شاہسوار نے اس کی گردن کاٹ کر نیزے کی نوک پر بلند کی اور ایک نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے نے اس کے ساتھیوں پر واضح کر دیا کہ وہ شاہسوار اپنے مشن میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس حقیقت نے ان کے عزائم بلند کردیئے، جبکہ مخالف فوج جر جیر کی ہلاکت سے ہمت ہار بیٹھی، جس کے نتیجہ میں انہیں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں اس شاہسوار کی بصیرت نے قلیل کو کثیر پر غلبہ عطا کر دیا اور یہ سب اللہ ہی کے فضل سے ممکن ہو سکا تھا۔

کیا آپ جانتے ہیں یہ شاہسوار کون تھے؟ جنگ سبیطلہ کے یہ شاہسوار تھے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے۔ ان کی لاڈلی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا کے بیٹے۔ آپؓ کے والد گرامی کا نام زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھا۔ ان کا شمار ان صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریم ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے جنگوں میں اپنی دلیری، بہادری اور ثابت قدمی سے شہرت پائی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے، میرا حواری زبیر ہے‘‘۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیدائش بھی اپنے اندر ایک دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔ کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔ ہجرت کے بعد کافی عرصہ تک مسلمانوں میں سے کسی کے ہاں بھی بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہودیوں نے لوگوں میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر رکھا ہے، اب ان کے ہاں اولاد نرینہ(بیٹا) پیدا نہیں ہوگی۔ مسلمان اس پراپیگنڈے سے افسردہ اور غمزدہ تھے۔ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے جب ہجرت کے بعد بیٹے کو جنم دیا تو مسلمانوں کو بے انتہا مسرت ہوئی اور انہوں نے بھرپور خوشی منائی۔ یہودیوں کے جھوٹ کا پول کھل گیا تھا، ان کے جھوٹے جادو کا زور خس و خاشاک کی مانند بہہ نکلا تھا۔ اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹے کی پیدائش، مدینہ کے مسلمانوں کیلئے ایک سہارا اور اللہ کی طرف سے نصرت ثابت ہوئی۔ اسماء رضی اللہ عنہا بیٹے کو لے کر رسول اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ ﷺ نے بچے کو اپنی گود میں لیا اور ایک کھجور منگوائی۔ آپ ﷺ نے کھجور کو اچھی طرح چبا کر اس بچے کے منہ میں ڈال دی۔ اس طرح اس بچے کے پیٹ میں جو سب سے پہلی غذا گئی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن مبارک تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا کی۔

رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔ آپ کے نانا جان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر مدینہ کے چاروں طرف کا چکر لگایا۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہونے کا تمام لوگوں کو علم ہو جائے۔ جو لوگ یہودیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے، ان پر حقیقت حال کھل جائے اور یہودی بھی یہ جان جائیں کہ ان کے جادو کا دعویٰ باطل ہو چکا ہے۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک

احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم رول نیچر کا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’ میں جب اپنے بچپن کا تصور کرتا ہوں تو ماں کے بعد جو چیز میرے ذہن پر چھا جاتی ہے وہ حسن فطرت ہے۔ جب بھی میں اپنا ماضی یاد کرتا ہوں تو لہلہاتے ہوئے کھیتوں، امڈ تے ہوئے بادلوں، دھلی ہوئی پہاڑیوں اور چکراتی، بل کھاتی اور قدم قدم پر پہلو بچاتی ہوئی پگڈنڈیوں کی ایک دنیا میرے ذہن میں آباد ہو جاتی ہے ‘‘۔

سوء ادب

غالب کی غزل جس کا مطلع ہے عشق تاثیر سے نومید نہیں جاں سپاری شجرِ بید نہیں

شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

نواسہ رسول ؓ نے کربلا کے میدان میں دین اسلام کو دائمی بقا عطا کی

آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر