چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن…

تحریر : مہوش اکرم


مشرقی تہذیب اور خواتین کی زینت کا ذکر ہو اور چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن کا تذکرہ نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ یہ نازک و رنگین زیورات نہ صرف خواتین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ صدیوں پرانی تہذیبی علامت اور جذباتی وابستگی کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

 چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن جہاں خوشیوں کی نوید بن کر دل کو بھاتی ہے، وہیں یہ آواز کسی بیٹی کی رخصتی، کسی دلہن کی آمد یا کسی تہوار کی چہکار کا اعلان بھی بنتی ہے۔ ان کی جھنکار صرف زیور کی نہیں بلکہ ایک مکمل احساس، روایت اور رشتہ کی ترجمانی کرتی ہے۔

پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں چوڑیاں اور کڑے خواتین کے روزمرہ لباس کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ خصوصاً شادی بیاہ، عید، دیوالی یا بسنت جیسے تہواروں پر خواتین رنگ برنگی چوڑیاں پہنتی ہیں جو ان کے جوش و خروش اور تہذیبی تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔پنجاب میں ’’چوڑیوں کی چھن چھن‘‘ لوک گیتوں میں بار بار دہرائی جاتی ہے۔ سندھی، بلوچی، پشتون اور کشمیری ثقافتوں میں بھی چوڑیوں کے اپنے مخصوص انداز اور ڈیزائن موجود ہیں، جو ہر علاقے کی انفرادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

چوڑیوں سے صرف خوبصورتی وابستہ نہیں، بلکہ یہ عورت کے احساسات کی ترجمان بھی ہیں۔ شادی شدہ خواتین کیلئے چوڑیاں کئی بار محبت، وفاداری اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ بیوہ یا سوگوار عورت کی خالی کلائیاں معاشرتی سطح پر ایک دکھ کی علامت مانی جاتی ہیں، جو اس نازک زیور سے جڑی جذباتی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔

کراچی، لاہور، حیدرآباد اور فیصل آباد  میں چوڑیاں بنانے کی صنعت ایک بڑا معاشی شعبہ بن چکی ہے۔ ہاتھ سے بننے والی چوڑیاں، شیشہ چوڑیاں، دھات یا پلاسٹک کی چوڑیاں، آج بھی ہنرمندوں کی محنت اور مہارت کا نتیجہ ہیں۔ ہزاروں خواتین و  حضرات ان صنعتوں سے روزگار حاصل کر رہے ہیں، جو مقامی معیشت کا اہم جزو ہے۔

چوڑیوں کی چھن چھن سے اچھی موسیقی تو شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔کسی زمانے میں صرف کانچ کی چوڑیاں ہی دستیاب ہوتی تھیں مگر اب چوڑیوں اور کڑوں کی اتنی اقسام ہیں کہ انتخاب مشکل ہوجاتاہے،لکڑی یا دھات کے بنے ہوئے کڑے جلد اپنی خوبصورتی اور چمک کھو دیتے ہیں،اگر آپ کے پاس بھی ایسے کڑے ہیں جو اپنی چمک دمک کھو بیٹھے ہیں تو بجائے انہیں ضائع کرنے کے انہیں ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ خوبصورت اور قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔جب وقت ملے تو ان کڑوں پر گوٹا یا لیس اور رنگ برنگ دھاگوں کا استعمال کر کے انہیں حسین بنائیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ آپ اس کام پر مہارت حاصل کرکے اسے آمدنی کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہیں۔

چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن صرف ایک آواز نہیں بلکہ ایک احساس، ایک روایت اور ایک تہذیب کا نام ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ اگرچہ فیشن میں تبدیلی آتی رہی ہے، مگر چوڑیوں کا مقام آج بھی عورت کے حسن و ہنر کا لازمی حصہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان روایتی علامتوں کو زندہ رکھیں اور نئی نسل کو ان کی اہمیت سے آگاہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب کی یہ خوبصورت جھنکار آنے والے وقتوں میں بھی سنائی دیتی رہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭