صوبائی بجٹ اور حکومتی دعوے
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو حکومت کی سیاسی، انتظامی اور ترقیاتی ترجیحات کی عکاس قرار دیا جارہا ہے۔مبصرین کے مطابق محدود وسائل، سیکورٹی خدشات اور معاشی دباؤ کے باوجود حکومت بلوچستان نے متوازن، سرپلس اور عوامی فلاح پر مبنی بجٹ پیش کیا ہے جس میں روزگار کے مواقع، تعلیم، صحت، توانائی، اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری جیسے اہم شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔
بجٹ نے جہاں حکومتی کارکردگی کو اجاگر کیا ہے وہیں اپوزیشن کے تحفظات نے سیاسی محاذ کو بھی گرم کر دیا ہے۔ منگل کو صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نو شیروانی نے صوبائی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا 1028ارب روپے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے رواں مالی سال کی ترقیاتی سکیموں کا 100فیصدحصہ استعمال کیا ہے اور پی ایس ڈی پی فنڈز کے بروقت استعمال سے بلوچستان کے ترقیاتی کاموں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے پوسٹ بجٹ بریفنگ میں بتایا کہ آئندہ مالی سال(2025-26ء) کا کل تخمینہ 1028 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 249.5 روپے تجویز کئے گئے ہیں اور غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے 639 ارب روپے۔ بجٹ میں نئے ترقیاتی منصوبوں کی تعداد 2550 ہے جن کیلئے 137.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جاری سکیموں کی تعداد 3633 ہے جن کیلئے 141.9 ارب روپے مختص ہیں۔ بجٹ میں چھ ہزار کنٹریکٹ اور ریگولر آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔ بلوچستان کو وفاقی محصولات سے 801 ارب روپے ملیں گے اور صوبے کے اپنے محصولات میں 101 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ سوئی گیس کی لیز سے صوبے کو 24 ارب روپے ملیں گے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ 51.1 ارب روپے کا سرپلس بجٹ ہے۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس لاگو نہیں کیا گیا۔
صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے کہاکہ حکومت نے مٔوثر اقدامات کئے ہیں اور بلوچستان میں امن کو بات چیت کے ذریعے بحال کرنے کو تیار ہیں لیکن دہشت گردی کا سخت جواب دیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ امن وامان پر تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا چاہیے ۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فورسز کیلئے نئی گاڑیاں خریدیں گے وزراکیلئے نہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صحت کے بجٹ میں سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ صوبائی حکومت اپنے اخراجات کم کر رہی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایم پی ایز کا فنڈ کم کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں اور پنشن میں چلا جاتا ہے۔وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے تقریبا ً60 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں، سب کو حکومت روز گار تو فراہم نہیں کر سکتی البتہ ترقیاتی منصوبوں سے بھی روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔بقول ان کے پی ایس ڈی پی میں ایسے منصوبے رکھے گئے ہیں جس سے کئی شعبوں میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بی ٹیوٹا کے ذریعے بھی ہزاروں نوجوان بیرون ملک جا کر روزگار کمائیں گے۔صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہاکہ غیر ترقیاتی بجٹ میں کفایت شعاری کو اپنایا گیا ہے،بجٹ میں وہ سکیمیں رکھی گئی ہیں جن سے عوام براہ راست مستفید ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے کے کئی بند سکولوں کو دوبارہ کھولا گیا ہے سکولوں میں نو ہزار اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے، 80 ارب کی سکیمیں براہ راست ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر ہوں گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے پہلی مرتبہ سولر پارکس کے ذریعے توانائی کا منصوبہ بنایا ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاق سے صوبے کو این ایف سی ایوارڈ میں 70 ارب روپے ملے ہیں ۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ پڑھے بغیر فوری طور پر بجٹ کو عوام دوست قرار نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن ہمیشہ تجاویز پیش کرتی ہے مالی سال2025-26ء کے بجٹ کیلئے بھی اپوزیشن نے اپنی تجاویز پیش کیں ۔اب بجٹ کے حوالے سے جمعہ کو اپوزیشن اپنا مؤقف پیش کرے گی ، فوری طور پر بجٹ کو عوام دوست بجٹ قرار نہیں دے سکتے۔نیشنل پارٹی کے رکن میر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے، اپوزیشن موجود ہے اپنا مؤقف بھی سامنے پیش کریں گے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان کابینہ کے اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت نے محدود وسائل کے باوجود عوامی فلاح، ترقیاتی ترجیحات اور ادارہ جاتی اصلاحات کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع اور متوازن بجٹ ترتیب دیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا 98 فیصد اجرا ایک بڑی کامیابی ہے جو تمام وزارتوں، بیوروکریسی اور وزیر خزانہ کی ٹیم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکل ڈویلپمنٹ بلوچستان حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے۔ مشیر برائے محنت اور ان کی ٹیم کی کاوشوں سے یہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے اور اس کے تحت 2300 نوجوانوں کے دوسرے بیچ کو جلد تربیت کیلئے بھیجا جائے گا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کا منصوبہ بھی شفافیت سے جاری ہے، اس کیلئے وفاقی حکومت سے آخری قسط جلد متوقع ہے۔60 ارب روپے کے اس میگا پراجیکٹس میں سٹیٹ بینک کے ذریعے رقوم براہ راست زمینداروں کو منتقل ہو رہی ہیں۔ تعلیم کا شعبہ ایک بڑا چیلنج تھا لیکن بلوچستان حکومت نے 3200 بند سکولوں کو فعال کر دیا ہے ۔صحت کے شعبے میں بھی بہتر قدم اٹھایا گیا ہے اور رواں ماہ کے اختتام تک 150 بیسک ہیلتھ یونٹس کو ٹیلی میڈیسن کے نظام سے منسلک کر دیا جائے گا۔ پنشن اصلاحات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے بیوروکریسی کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ طویل المیعاد مالی نظم و نسق کیلئے اصلاحات ناگزیر تھیں جو اَب کامیابی سے مکمل ہو چکی ہیں۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو اس بار بجٹ میں سنجیدگی سے شامل کیا گیا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
رواں ہفتہ ایران اسرائیل کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی شہریوں کی ایران سے وطن واپسی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ایران میں پھنسے 500سے زائدزائرین سمیت 752افراد کوئٹہ پہنچے جنہیں ملک کے دیگر حصوں میں روانہ کر دیا گیا۔ کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات نے بتایا کہ ایران سے آنے والے 545زائرین اور 207طلبا بسوں کے ذریعے کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ ایران سے آنے والے افراد کو سیکورٹی انتظامات کے تحت کوئٹہ سے اسلام آباد، پنجاب اور کراچی روانہ کیا جائے گا۔گوادر کے علاقے گپت بارڈر پر بھی بعض لوگ پہنچے ہیں جنہیں کراچی بھیجا جائے گا۔