بجٹ اجلاس میں سب کچھ سوائے بجٹ پر بحث کے

سندھ کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ صوبے میں کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں گیا۔ وفاقی حکومت نے بھی اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا البتہ پنجاب میں کم از کم اجرت 37ہزار سے بڑھا کر 40ہزار کی گئی ہے۔ سندھ کے بجٹ کا کل حجم3451 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کچھ اچھے فیصلے بھی سامنے آئے ہیں،مثال کے طور پر شہریوں کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے پانچ محصولات ختم کیے جارہے ہیں۔ کسانوں کو بلاسود قرض دیے جائیں گے، اس کے لیے سندھ کوآپریٹو بینک قائم ہوگا۔ تعلیم اور صحت کے لیے بھی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ساڑھے چارہزار کے قریب اساتذہ اور عملہ بھی بھرتی ہوگا۔ لاڑکانہ میں 10ارب روپے کی لاگت سے نیا ہسپتال بنے گا۔ کراچی میں الیکٹرک بسوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی۔ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ میں وسعت بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جس وقت بجٹ پیش کررہے تھے تو ایوان کے اندر اپوزیشن کا احتجاج بھی جاری تھا۔ ان میں ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف شامل تھی۔ بجٹ پر بحث کے دوران ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ الزامات، دشنام طرازی، ایک دوسرے کے رہنماؤں کے لیے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ جملے بازی یہاں تک بڑھی کہ ہاتھا پائی تک ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پیپلز پارٹی کے رکن اعجاز سواتی نے قیدی نمبر 420کہا تو تحریک انصاف کی طرف سے سزائے احتجاج بلند کی گئی اور کہا گیا کہ رہنماؤں کا احترام کیا جائے ورنہ وہ بھی صدر مملکت کے بارے باتیں کریں گے لیکن سعید غنی نے وضاحت کر دی کہ کسی کا نام نہیں لیا گیا اپوزیشن بات کو غلط رنگ نہ دے۔ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی رشتے داری بھی بحث کا حصہ بنی رہی۔ ہمارے خیال میں طنز یہ جملے بازی ایوان میں ہوتی رہنی چاہیے لیکن اخلاقیات کا پہلو بہرحال پیش نظر رہے۔
اس بار بجٹ اجلاس میں سبھی کچھ ہے سوائے بجٹ پر بحث کے۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان موجود تلخی قومی اسمبلی میں بھی جاپہنچی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ شازیہ مری صاحبہ نے اپنی تقریر میں شکوہ کیا کہ وفاقی بجٹ میں سندھ کے لیے کم فنڈز رکھے گئے ہیں تو ایم کیو ایم کے اراکین نے کہا کہ سندھ کا نام لے رہی ہیں تو کراچی کا نام کیوں نہیں لیتیں؟ شازیہ مری بولیں کہ کراچی سندھ ہی کا حصہ ہے۔ کراچی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ شازیہ مری بہت وضع دار خاتون ہیں، معلوم نہیں کہ وہ کیسے یوں غصے میں آگئیں۔
سندھ کے حوالے سے ایک اچھی خبر البتہ یہ ہے کہ صوبے میں 16جون سے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی کا اطلاق ہوگیا ہے۔ پہلے بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن نہ کوئی دکاندار مانا اور نہ ہی عوام۔ حکومت بھی اعلان کے بعد سنجیدہ دکھائی نہیں دی اور فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوسکا، لیکن اس بار لگ رہا ہے کہ حکومت ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے سنجیدہ ہے اور ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جرمانے اور گرفتاریاں بھی ہوں گی۔پلاسٹک کی تھیلیاں تیار کرنے والوں کی طرف سے یہ دلیل سامنے آئے گی کہ پابندی سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوں گے تاہم روزگار کو جواز بنا کر ماحول اور انسانی صحت کو طویل مدتی نقصان قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات نسلوں کی بھلائی کے لیے ضروری ہیں۔ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔
قانون کے نفاذ کی بات ہے تو یہ جان لیں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کراچی میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے اور تین ہزارکے قریب گاڑیاں ضبط کی جاچکی ہیں۔ الزامات بغیر نمبر پلیٹ، غیرمعیاری نمبر پلیٹ، فینسی نمبر پلیٹ، بغیر رجسٹریشن، بغیر ڈرائیونگ لائسنس اور بغیر ہیلمٹ بائیک چلانا وغیرہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام ایسے جرائم ہیں جن کی بنیاد پر گاڑی یا بائیک کو ضبط کیا جانا چاہیے؟ حکومت عوام سے قانون پر عمل ضرور کروائے لیکن خود بھی تو قانون پر عمل کرے۔ چالان کی جگہ گاڑی ضبطی سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید جلد ہی حکومت اس حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری کردے تاکہ سب کو اصل صورتحال کا علم ہوسکے ورنہ یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ جانے انجانے ہی میں کرپشن کے لیے ایک نیا اور بہت بڑا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔
کراچی کے باسیوں کے لیے ایک ہی خبر اچھی بھی ہے اور بری بھی، وہ یہ کہ شہر کی 20اہم سڑکوں پر تین اور چار نشستی رکشوں کے داخلے پر دوماہ کے لیے پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان میں 11وہ سڑکیں بھی شامل ہیں جن پر دوماہ پہلے پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ پچھلے حکم نامے پر عمل ہوتا تو کہیں نظر نہ آیا۔ نظام ٹھیک کرنے کے بجائے مزید نوسڑکوں کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ شہر کی ہر اہم شاہراہ پر بیچوں بیچ رکشے چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بیچ شاہراہ سواریاں اتارنا اور چڑھانا، پریشر ہارن بجانا، اوور سپیڈنگ تو عام سی بات ہے۔ تیز آواز میں گانے بجانا بھی معمول ہے۔ ٹریفک پولیس کو واقعی ان رکشوں سے قانون پر عمل کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم عوام کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ شہر کی آبادی کی ضرورت سے بہت کم ہے۔ رکشے بند ضرور کریں لیکن پہلے عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولیات تو فراہم کردیں۔رکشے بھی بند ہوگئے تو عوام سفر کیسے کریں گے؟بات تلخ ہے مگر اپنے اندر بھرپور معنویت رکھتی ہے۔