پنجاب کا بجٹ ،ترقیاتی بیانیہ نوازشریف کا حکومتی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار

تحریر : سلمان غنی


ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک کو دو ہفتہ کیلئے مؤخر کرنے کے اعلان ایک اہم سیاسی پیش رفت ہے۔

 انہوں نے اس حوالے سے صورتحال کا درست ادراک کیا کہ اس صورتحال میں پاکستان کے سیاسی محاذ پر انتشار اچھا نہیں۔ ایسے معاملات جو پاکستان کی قومی سلامتی اور مفادات سے جڑے ہوں ان پر سیاست کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کو مؤخر کرنے کو مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے بھی سراہاہے۔پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں پیدا صورتحال کے پیش نظر قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے، اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی کے اس اعلان کومثبت انداز میں لینا چاہیے اور سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ نکالنا چاہئے۔ خواجہ سعد رفیق کے اس بیان کی سیاسی حوالے سے ایک اہمیت ہے کیونکہ قومی سیاست اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی جمود کی کیفیت طاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور عوامی مسائل سے صرف نظر برتنے کے باعث اہل سیاست اور عوام کے درمیان تعطل کی فضا قائم ہے۔ لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے حوالے سے عوام کی آواز بننے کو تیار نہیں تو پھر وہ کس طرح کسی احتجاج یا احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں گے ؟ پی ٹی آئی کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو بار بار احتجاجی آپشنز کے استعمال سے بطور سیاسی جماعت ان کی اس صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے۔ جیل میں بیٹھی پارٹی قیادت تو یہی چاہتی ہے کہ ان کی جماعت ان کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے ملک کے اندر ایسی احتجاجی اور ہنگامی کیفیت طاری کردے کہ ملک کے فیصلہ ساز حلقے ان سے رجوع پر مجبور ہو جائیں لیکن جیل سے باہر بیٹھی قیادت کو جن حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہی جانتی ہے۔ویسے بھی احتجاجی تحریک کے کچھ محرکات ہوتے ہیں جن میں سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف احتجاجی عمل کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتی ہیں اور عوام کے اندر بھی حکومت کے خلاف تحریک موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر اپوزیشن کا بڑا کردار سامنے آتا ہے، لیکن آج کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نہ تو کسی بڑے احتجاج کا امکان دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی احتجاجی تحریک کیلئے تیاریاں نظر آتی ہیں، لہٰذا اپوزیشن کی بڑی جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کو خود اپنی پالیسی اور حکمت عملی کا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مزاحمتی سیاست اور احتجاج کی پہچان رکھنے والی یہ جماعت ان حالات سے دوچار کیوں ہے اور جماعت کے اپنے ذمہ داران ہی ایسے کسی عمل کا حصہ بننے کیلئے کیوں تیار نہیں۔اس تناظر میں بھی بانی پی ٹی آئی نے اس مرحلہ پر اپنی احتجاجی تحریک مؤخر کرکے جہاں ملک میں سیاسی اتحاد و یکجہتی کے طور پر اچھا پیغام دیا ہے وہاں اپنی جماعت کے ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کو بھی کسی بڑے امتحان سے بچا لیا ہے کیونکہ بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ملک میں احتجاجی تحریک کے حوالے سے حالات ساز گار ہیں اورنہ ہی ان کی جماعت اس حوالے سے تیار نظر نہیں آ تی ہے۔

 بجٹ کی بات کی جائے توپنجاب کے بجٹ کو ترقیاتی بیانیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔بجٹ کا کل حجم تو5335ارب ہے جس میں ترقیاتی فنڈز کا حجم 1240 ارب روپے رکھا گیا ہے جسے پنجاب کی سیاسی تاریخ کا بلند ترین ترقیاتی پروگرام قرار دیا جارہا ہے۔ بجٹ میں صحت، تعلیم، زراعت، خواتین، نوجوانان اور انفراسٹرکچر کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ صحت کیلئے 630.5اور مقامی حکومتوں کیلئے 411.1ارب مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے اہم ہے۔ مقامی حکومتوں کیلئے خطیر رقم مختص کرنے کے ساتھ ضروری ہے کہ حکومت ترقیاتی عمل کو یقینی بنانے کیلئے بلدیاتی انتخابات کیلئے بھی پیش رفت دکھائے۔ مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام عوامی سطح پر جہاں عوامی مسائل کے حل کا ضامن ہے وہاں اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا عمل جمہوری سسٹم کو فعال اور مضبوط بناتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حوالے سے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ عوامی اعتماد پر پورا اترنے کیلئے سرگرم نظر آتی ہیں۔ ان کے بجٹ سے بھی یہ تاثرملتا ہے۔ انہوں نے سوشل سکیورٹی راشن کارڈ کیلئے 40ارب، ہمت کارڈ کیلئے چارارب اور لیپ ٹاپ دینے کیلئے 15ارب مختص کئے ہیں۔ یہ بجٹ قرضوں پر انحصار کم کرنے اور خود انحصاری کی سمت بڑھنے کا مظہر بھی ہے۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے ٹیکس اہداف میں 17 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور صوبہ کی اپنی آمدن 828.1روپے تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کو ملازمین کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔ بجٹ کے حوالے سے عمومی رائے یہ ہے کہ حکومتیں بجٹ کو اپنی ترجیحات کے تحت زبردست بناتی ہیں لیکن اصل کام ان پر عمل درآمدکرنا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ حکومت پنجاب مالی سال 2025-26ء میں کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔

 ادھرمسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف لندن سے لاہور واپس پہنچ چکے ہیں۔ ان کے دورہ ٔلندن بعض طبعی ٹیسٹوں کیلئے تھا لیکن انہوں نے لندن میں خطہ کی صورتحال، بھارت کے جارحانہ طرز عمل اور ایران اسرائیل جنگ سمیت دیگر ایشوز پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ بہت حد تک بڑے پسندانہ تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت کی حکومت کی کارکردگی پر بھی اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت داخلی اور خارجی محاذ پر بہترین کام کر رہی ہے۔ ایران کے حوالے سے انہوں نے حکومتی مؤقف کو بھرپور قرار دیا اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کے حوالے سے کہا کہ ہماری قومی صلاحیت دفاع کیلئے ہے اور بھارت کے خلاف بھی ہم نے اپنا دفاع کیا۔ نوازشریف نے حکومتی کارکردگی بارے ایک سوال پر کہا کہ وزیراعظم وہ ہوں یا شہباز شریف، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ہیں۔ اس سے وزیراعظم شہباز شریف پر ان کے اعتماد کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کیا نوازشریف موجودہ حالات میں پاکستانی میڈیا کو بھی اعتماد میں لیں گے؟ یہ دیکھنا ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاک بنگلہ ٹی 20 سیریز:گرین شرٹس کا پلڑا بھاری

پاکستان بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کا آغاز آج سے ڈھاکہ کے شیر بنگلہ سٹیڈیم میں ہو گا۔پاکستان ٹی ٹوئنٹی میچز میں بنگلہ دیش پر حاوی رہا ہے، لیکن میزبان ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پراعتماد ہے اور وہ سری لنکا کے خلاف کامیابی کا تسلسل لے کر پاکستان کے خلاف میدان میں اُترے گا۔

قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد: کھیلوں میں اصلاحات وعملی ا قدامات

ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت ہاکی، سکواش، کرکٹ اور سنوکر کا عالمی چیمپئن تھا۔ ہاکی اور سکواش میں تو گرین شرٹس ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے جبکہ دیگر کھیلوں میں بھی سبزہلالی پرچم ہمیشہ سربلند دکھائی دیتا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کا ایک سال ،عدلیہ میں تاریخی اصلاحات

جسٹس مس عالیہ نیلم کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے وہ تاریخی اقدامات کیے ہیں جو لاہورہائیکورٹ کے 150سالہ دور میں کوئی اور نہ کر سکا۔

مہمان نوازی !

برسات کے دن تھے، ہر طرف بارش سے موسم خوشگوار اور سڑکیں پانی سے جل تھل تھیں۔ بارش رکنے کے کچھ دیر بعد بہت حبس ہو گیا تھا۔

نصیحت آموز باتیں

٭… کتابوں سے دوستی کریں کیونکہ علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا۔

انوکھا سخی (قسط نمبر1)

حجاز کی سرزمین عجب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تھا، خاندانوں کو جھگڑتے دیکھا تھا، برادری کے نام پر نفرت کے کھیل دیکھے تھے، لیکن یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو گیا تھا، ماں اپنے ہی سگے بیٹے کو زنداں میں بند کر رہی تھی، بھائی بھائی کی جان کے در پے تھا۔ یوں لگتا تھا کسی نے اُن کے دلوں کا رخ پھیر دیا ہے۔