اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں اختلاف مت کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ‘‘ (سورۃ الانفال:46) ’’میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت‘‘(خطبہ حجۃ الوداع)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب مل کر اللہ کی رسّی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نکالا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہے، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو(سورہ آلِ عمران: 102،103)۔ 

قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرا دیا کرو‘‘ (سورۃ الحجرات:10)۔ یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔ 

حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ ہے لڑنے والوں کے درمیان باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کروا دینا‘‘(سنن ابودائود:4919)۔

موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نے جا بجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ آج پوری دنیا اختلاف وانتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں۔ ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے، آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس جدید دور میں سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی۔ پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا، پھر ہم ادب و احترام کا رشتہ ہی بھول گئے، جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے۔ دین اسلام میں اختلاف رائے جہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (سورۃ الانفال:46)۔ اس آیت سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں کس اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا اور ان کی اس طاقت کا جو اتحاد امت کی وجہ سے تھی ختم ہوجانا ہے۔ 

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق و اتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشار اور تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن و سنت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق و اتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئی۔ امت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت‘‘۔ بیشک اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی و اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخروی کیلئے بہت اہم اور ضروری ہے، یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم۔ رسول اکرمﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بیحد احساس رہتا تھا۔اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر، تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی ہے۔اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔نبی کریمﷺنے سخت ا لفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ ’’جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا،۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں،اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں‘‘(سنن ابن ماجہ:3948)۔

رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو، جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضاء بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘‘(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔اُمت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضورﷺ نے ایک عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا ’’یعنی ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا‘‘۔معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کیلئے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی وسیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ خدا کرے کہ ہمارا کھویا ہوا شاندار ماضی ہم کو دوبارہ مل جائے اور ہم پھر سے ایک بار سربلندی وسرخروی سے اس دنیا میں جئیں اور جب اس دنیا سے جائیں تو اخروی کامیابی بھی ملی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاک بنگلہ ٹی 20 سیریز:گرین شرٹس کا پلڑا بھاری

پاکستان بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کا آغاز آج سے ڈھاکہ کے شیر بنگلہ سٹیڈیم میں ہو گا۔پاکستان ٹی ٹوئنٹی میچز میں بنگلہ دیش پر حاوی رہا ہے، لیکن میزبان ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پراعتماد ہے اور وہ سری لنکا کے خلاف کامیابی کا تسلسل لے کر پاکستان کے خلاف میدان میں اُترے گا۔

قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد: کھیلوں میں اصلاحات وعملی ا قدامات

ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت ہاکی، سکواش، کرکٹ اور سنوکر کا عالمی چیمپئن تھا۔ ہاکی اور سکواش میں تو گرین شرٹس ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے جبکہ دیگر کھیلوں میں بھی سبزہلالی پرچم ہمیشہ سربلند دکھائی دیتا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کا ایک سال ،عدلیہ میں تاریخی اصلاحات

جسٹس مس عالیہ نیلم کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے وہ تاریخی اقدامات کیے ہیں جو لاہورہائیکورٹ کے 150سالہ دور میں کوئی اور نہ کر سکا۔

مہمان نوازی !

برسات کے دن تھے، ہر طرف بارش سے موسم خوشگوار اور سڑکیں پانی سے جل تھل تھیں۔ بارش رکنے کے کچھ دیر بعد بہت حبس ہو گیا تھا۔

نصیحت آموز باتیں

٭… کتابوں سے دوستی کریں کیونکہ علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا۔

انوکھا سخی (قسط نمبر1)

حجاز کی سرزمین عجب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تھا، خاندانوں کو جھگڑتے دیکھا تھا، برادری کے نام پر نفرت کے کھیل دیکھے تھے، لیکن یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو گیا تھا، ماں اپنے ہی سگے بیٹے کو زنداں میں بند کر رہی تھی، بھائی بھائی کی جان کے در پے تھا۔ یوں لگتا تھا کسی نے اُن کے دلوں کا رخ پھیر دیا ہے۔