بحیثیت مسلمان ہماری اخلاقی ذمہ داریاں

تحریر : مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی


زندگی کی ہر جہت اور کردار میں ہمیں آقا کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ! لوگوں میں سے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر رشتہ دار‘‘ (صحیح مسلم)تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیالکے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘ (ابن ماجہ)

اخلاق انسان کے وہ اعمال اور عادات ہوتے ہیں جو اس کی فطرت میں پختہ ہوں نہ کہ بناوٹی اور بلا تکلف اس سے صادر ہوتے ہوں۔ انسان کے اخلاق سے اس کے مزاج اور رویے کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کس طبیعت کا مالک ہے۔فردِ واحد کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی انقلاب برپا کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور بہترین معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے۔ دین اسلام نے جو اخلاق کا رول محبوبِ کبریا احمد مجتبیٰﷺ کی ذاتِ اقدس کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس میں ہمارے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ آقا کریم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق پر خالقِ کائنات کا فرمان ہے ’’اور بیشک آپﷺ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں‘‘ (القلم:4)۔ آقا کریم ﷺ کے مزاج شریف پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’( اے حبیبؐ ) خدا کی رحمت سے آپؐ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپؐ کہیں سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپؐ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام: 159)۔

حضور نبی کریم ﷺ محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم و عفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، شجاعت، ایفائے عہد، حسن معاملہ، صبر و قناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلفی، تواضع و انکساری، حیا داری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ ﷺ فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک جملے میں اس کی صحیح عکاسی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ تعلیماتِ قرآن پرپورا پورا عمل آپﷺ کے اخلاق تھے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ آپﷺ کی بعثت باعثِ تکمیل اخلاق حسنہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کی ہر جہت میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کو عملی جامہ پہنا ئیں۔ آپ ﷺ کے اخلاق سے متخلق ہو جائیں، اوصافِ حمیدہ سے متصف ہو جائیں اور بحیثیت فرد اور بحیثیت مجموعی آپﷺ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی تکمیل کریں۔ ہر مسلمان سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرنے کا مواخذہ دار ہے۔خواہ انفرادی سطح پر ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی سطح پر کسی عہدہ و منصب پر فرض شناسی کے آداب ہوں، زندگی کے ہر شعبے میں آپ ﷺ نے آدمی کیلئے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن و اکمل ادا کرنے کا ایک آئیڈیل نمونہ پیش کیا ہے۔

 بحیثیتِ انفرادی اخلاقی ذمہ داریاں

رب ذوالجلال نے اپنے محبوب مکرم ﷺ کی صورت میں ہر مسلمان مومن کیلئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ مہیا فرما دیا۔ زندگی کی ہر جہت میں اور ہر کردار میں، انفرادی نشوونما سے لے کر معاشرے کی تشکیل تک، ہمیں آقا کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

بطور والد ذمہ داری

صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی شہزادیوں اور شہزادوں (نواسوں) کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرضیکہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہئے۔ آقا کریم ﷺ نے اسے خود کر کے دکھایا اور سمجھایا ہے۔اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ کچھ اعرابی حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم!(اپنے بچوں کا ) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر)  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے‘‘(ابن ماجہ، باب آداب و اخلاق)۔

بطورا ولاد ذمہ داری

نبی مکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ آپ ﷺ کے بچپن میں ہی انتقال فرما گئیں اور والد حضرت عبداللہ بن عبد المطلب آپﷺ کی ولادت سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے تھے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کی حیاتِ طیبہ چونکہ اسوہ حسنہ ہے، اس لیے جب جب آپﷺ نے والدین کا ذکر فرمایا ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک کا معاملہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔ نبی کریم ﷺ نے اولاد کیلئے بطور خاص والدین سے حسن سلوک کی ترغیب و تلقین فرمائی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! لوگوں میں سے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر قریبی (رشتہ دار)‘‘ (صحیح مسلم:6501)

نبی کریمﷺ نے ایک شخص کی زندگی میں والدین کے مقام اور ان کی حیثیت کی اہمیت اس انداز سے بیان فرمائی کہ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ قرار دیا اور والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو جنت کا راستہ بتلایا۔ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہیں‘‘ (المعجم الکبیر: 7647)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا، پوچھا پھر کونسا؟ فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘ (ابن ماجہ)۔

بطورشوہر ذمہ داری

رشتہ ازدواج سماج کی عمارت کی اکائی تسلیم کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسِیت و محبت کا جو رشتہ نکاح کے ذریعہ رائج فرمایا ہے، اس سے حسنِ معاشرت میں اضافہ در اضافہ ہوتا ہے۔ شوہر پر بیوی کے حقوق متعین کیے گئے ہیں اور اس کی قدر و منزلت کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا مکمل طور پر متاع ہے اور بہترین متاعِ دنیا نیک بیوی ہے‘‘ (مسلم شریف)۔  نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کیلئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کیلئے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘ (ابن ماجہ)

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسولﷺ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم کھائو تو اسے بھی کھلائو، جب تم پہنو تو اسے بھی پہنائو، اس کے چہرے پر نہ مارو، نہ اسے برا بھلا کہو اور (ناراضگی پر) صرف گھر میں اس سے علیحدگی اختیار کرو‘‘ (مشکو ۃالمصابیح: 3259)

بطور سردار(مالک)ذمہ داری

حضرت زید بن حارثہؓ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمانے والے تھے، آپ کو اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دیا تھا۔آپﷺ کا حضرت زیدؓ سے محبت کا رویہ اس قدر عیاں تھا کہ آپﷺ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور انہیں آزاد کی حیثیت عطا فرمائی(تفسیر در منثور، زیر آیت الاحزاب:5)۔ یہی نہیں بلکہ صحابہ کرامؓ  میں آپؓ کوحُب النبی یعنی نبی کے محبوب کا لقب بھی ملا (تہذیب الاسماء، ج:1، ص:198)

بطور بھائی ذمہ داری

نبی کریم ﷺ کے سگے بھائی بہن نہیں تھے، آپﷺ کی پرورش آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب نے فرمائی۔چچا زاد بھائی  حضرت علیؓ سے آپﷺ بے حد محبت فرماتے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب مدینہ طیبہ میں اخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علیؓ روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپﷺ نے سارے صحابہ کرامؓکے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے علیؓ!تم دنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو‘‘(جامع ترمذی)۔

بطور اعزاء و اقربا ء کے ذمہ داری

نبی کریمﷺ نے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’دینے والے کا ہاتھ اوپر(برتر)ہوتا ہے، پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر‘‘(مسند احمد:16018)۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہانے نبی کریم ﷺ سے پوچھا، یا رسول اللہﷺ!میرا شوہر ضرورت مند ہے، کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: ’’ہاں تمہیں اس صدقے کا دوہرا اجر ملے گا‘‘۔

ایک شخص نے پوچھا  یا رسول اللہﷺ !اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں کوئی بکری وادی میں اس حال میں ملے کہ اس نے چھری اور (آگ جلانے کیلئے)پتھر بھی اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا‘‘(الکبری للبیہقی: 11305)

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا ہمسایہ اس کے فساد سے محفوظ نہیں‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان)

سیدنا عبد اللہ ابن عباسؓ نے سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کو خبر دیتے ہوئے کہا: میں نے حضور نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھاتا ہے جبکہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے‘‘(صحیح بخاری)

قارئین کرام! ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کی تشکیل کیلئے ہمیں اپنی تمام ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا پڑے گا جنہیں قرآن و سنت کی روشنی میں صفحہ قرطاس پہ لایا گیا ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین یارب العالمین)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاک بنگلہ ٹی 20 سیریز:گرین شرٹس کا پلڑا بھاری

پاکستان بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کا آغاز آج سے ڈھاکہ کے شیر بنگلہ سٹیڈیم میں ہو گا۔پاکستان ٹی ٹوئنٹی میچز میں بنگلہ دیش پر حاوی رہا ہے، لیکن میزبان ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پراعتماد ہے اور وہ سری لنکا کے خلاف کامیابی کا تسلسل لے کر پاکستان کے خلاف میدان میں اُترے گا۔

قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد: کھیلوں میں اصلاحات وعملی ا قدامات

ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت ہاکی، سکواش، کرکٹ اور سنوکر کا عالمی چیمپئن تھا۔ ہاکی اور سکواش میں تو گرین شرٹس ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے جبکہ دیگر کھیلوں میں بھی سبزہلالی پرچم ہمیشہ سربلند دکھائی دیتا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کا ایک سال ،عدلیہ میں تاریخی اصلاحات

جسٹس مس عالیہ نیلم کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے وہ تاریخی اقدامات کیے ہیں جو لاہورہائیکورٹ کے 150سالہ دور میں کوئی اور نہ کر سکا۔

مہمان نوازی !

برسات کے دن تھے، ہر طرف بارش سے موسم خوشگوار اور سڑکیں پانی سے جل تھل تھیں۔ بارش رکنے کے کچھ دیر بعد بہت حبس ہو گیا تھا۔

نصیحت آموز باتیں

٭… کتابوں سے دوستی کریں کیونکہ علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا۔

انوکھا سخی (قسط نمبر1)

حجاز کی سرزمین عجب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تھا، خاندانوں کو جھگڑتے دیکھا تھا، برادری کے نام پر نفرت کے کھیل دیکھے تھے، لیکن یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو گیا تھا، ماں اپنے ہی سگے بیٹے کو زنداں میں بند کر رہی تھی، بھائی بھائی کی جان کے در پے تھا۔ یوں لگتا تھا کسی نے اُن کے دلوں کا رخ پھیر دیا ہے۔