علم کی دولت

شاذب اسکول سے آیا تو سیدھا باورچی خانے کی طرف دوڑا اور زور سے آواز دی،’’امی! امی! آپ کدھر ہیں ؟ آپ کو کچھ بتانا ہے‘‘۔
اس کی امی جو سالن بنا رہی تھیں، آواز سن کر چونکیں اور بولیں،’’کیا بات ہے بیٹا، کیوں چلا رہے ہو؟‘‘۔ شاذب نے پر جوش انداز میں کہا،’’امی! آپ کو یاد ہے ہماری اردو کی ٹیچر چھٹیوں پر گئی ہیں؟ آج ان کی جگہ نئی ٹیچر آئی ہیں۔ بہت ہی اچھی اور پیار سے پڑھانے والی ہیں۔ انھوں نے ہمیں اتنی خوبصورت باتیں بتائیں کہ دل خوش ہو گیا‘‘۔
امی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’پہلے ان کا نام تو بتاؤ، بیٹا‘‘۔ ’’جی، ان کا نام زینب مس ہے‘‘ شاذب نے بتایا۔’’اچھا، اب یہ بھی بتاؤ کہ انھوں نے کیا خاص باتیں بتائیں؟‘‘ امی نے برتن ہلاتے ہوئے پوچھا۔
شاذب نے سکون سے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’امی! زینب مس نے سب سے پہلے ہمیں علم کا مطلب بتایا کہ علم کا مطلب ہے جاننا۔ پھر کہا کہ علم انسان کو اچھے برے کی پہچان دیتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علم انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ پھر انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی سنائی: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔
’’یہ تو بہت پیاری باتیں ہیں، واقعی تمھیں بہت اچھی استاد ملی ہیں‘‘ امی نے خوشی سے کہا۔
شاذب نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا، ’’لیکن امی! میں ایک بات سمجھ نہیں پایا، مس زینب نے کہا کہ علم ایک دولت ہے، جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
امی ہنس پڑیں،’’یہ تمہیں کھانے کے بعد سمجھاتی ہوں، پہلے میں کھانا تیار کر لوں‘‘۔
شاذب نے بے چینی سے کھانا کھایا اور جیسے ہی امی فارغ ہوئیں، وہ فوراً ان کے پاس آ گیا۔’’امی! اب تو بتائیں نا!‘‘
امی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے، سنو۔ علم ایک ایسا خزانہ ہے جو ہمارے دماغ اور دل میں بستا ہے۔ جیسے دولت کو چور چرا سکتا ہے، ویسے علم کو نہیں۔ علم تو ایسا خزانہ ہے جو بانٹنے سے بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا‘‘۔
’’تو امی! کیا علم کی کوئی اقسام بھی ہوتی ہیں؟‘‘ شاذب نے سوال کیا۔
امی نے سر ہلایا، ’’جی ہاں! علم کی دو بڑی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک دین کا علم اور دوسرا دنیاوی علم۔ دینی علم انسان کو اللہ کا راستہ دکھاتا ہے، جبکہ دنیاوی علم جیسے انجینئرنگ، طب یا تدریس انسان کو دنیا میں مقام اور عزت دیتا ہے۔ دونوں اقسام کا علم انسان کو بہتر انسان بناتا ہے‘‘۔
شاذب نے اثبات میں سر ہلایا،’’امی، اب مجھے سمجھ آ گیا کہ علم کیوں کوئی نہیں چھین سکتا‘‘۔
امی نے پیار سے اس کا سر تھپتھپایا، ’’شاباش بیٹا! تم نے بہت غور سے سنا، علم سے ہی تم قوم و ملت کا نام روشن کر سکتے ہو‘‘۔
شاذب اٹھ کر اپنی کتابیں لے آیا اور بولا، ’’امی، اب میں ہوم ورک مکمل کرتا ہوں، کل سزا سے بچنا بھی ہے‘‘۔
امی مسکرا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں اور شاذب کتابوں میں مگن ہو گیا۔
قیمتی باتیں
٭… علم کے ساتھ عمل اور دولت کے ساتھ شرافت نہ ہو تو دونوں بیکار ہیں۔
٭… مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنی تدبیر اس وقت بھی جاری رکھتے ہیں جب زمانہ ان کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔
٭… دولت سے کتابیں خریدی جا سکتی ہیں علم نہیں، دولت سے اجسام خریدے جا سکتے ہیں احساسات و جذبات نہیں۔
٭… حسد سے بچیں کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑیوں کو۔
٭حیات خود نہیں بنتی بنائی جاتی ہے، چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں۔
ہانیہ اجمل، جماعت نہم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اظہر آباد اسرانی ، ضلع بہاول پور
ا٭تم پانی جیسے بنو جو اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے،پتھر جیسے مت بنو جو دوسروں کا راستہ بھی روک لیتا ہے۔
٭ فارغ دماغ شیطان کا گھرہوتا ہے۔
٭ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
٭ علم کا ایک قطرہ جہالت کے سمندر سے بہتر ہے، اور عمل کا ایک قطرہ علم کے سمندر سے افضل ہے۔
٭خوبصورت وہ جو خوبصورت کام کرے۔
٭دوست وہ جو مصیبت میں کام ا?ئے۔