بجٹ بحث اور نوک جھونک

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ میں حکومت اور اپوزیشن میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ چند روز قبل صوبائی بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ مزدور کی کم از کم اجرت 42ہزار روپے ہونی چاہیے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو چوکیدار، چپڑاسی یا اسی قسم کی ملازمت کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی زندگی بہتر بنانے کے لیے روزانہ سیاستدان دلپذیر تقریریں کرتے ہیں کہ ہمیں غریب کو دو وقت کی روٹی اور تعلیم و صحت وغیرہ فراہم کرنی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کم از کم اجرت کی بات کی ہے تو امید ہے کہ وہ جلد یہ اعلان بھی کریں گے کہ صوبے میں کم از کم تنخواہ یہی ہوگی۔ یقینی طور پر وہ ایک بہت بڑے طبقے کی دعائیں سمیٹیں گے جو روز جیتا ہے اور روز مرتا ہے۔ 

بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ہلڑ بازی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا حق ہے لیکن اس کی حد ہے، ایوان کا ماحول خراب نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں روپے رکھے گئے ہیں جو خوش آئند ہے۔وزیر اعلیٰ نے وفاقی بجٹ میں سندھ کے لیے کوئی سکیم نہ رکھے جانے پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ دیگر صوبوں کے لیے سکیمیں رکھی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپوزیشن سے امید باندھی ہے کہ وہ اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے میں حکومت کی مدد کرے گی۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی علی خورشیدی نے بجٹ پر بحث کے دوران بڑی دلچسپ تقریر کی اور کہا کہ ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ کراچی اور سندھ کو الگ کرنے کی بات کیوں کرتے ہیں حالانکہ صوبائی حکومت کے اراکین، ضیاالحسن لنجار، سردار شاہ یا محمد بخش مہر اور دیگر بھی تو کراچی کی بات الگ اور سندھ کی بات الگ کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ مثال بھی دی کہ پوری دنیا میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی سے آئے ہیں لیکن آپ سندھ کے کسی دوسرے شہر کا نام لیں تو یہ بتانا پڑے گا کہ یہ شہر کراچی سے اتنے کلومیٹر دور واقع ہے۔ بقول علی خورشیدی، اگر بیٹا باپ سے زیادہ مشہور ہوجائے تو اس پر برا ماننے کے بجائے فخر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کراچی کی ابتر صورتحال کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ شہر میں متعدد مافیاز موجود ہیں جنہوں نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ بجلی کے مسئلے کو بھی حل کیا جانا چاہیے، شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ دُہرے عذاب سے کم نہیں۔ تاہم سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کراچی پر تنقید کو مسترد کردیا اور کہا کہ اگر یہ شہر رہنے کے قابل نہیں تو پھر پورے ملک سے لوگ یہاں روزگار کے لیے کیوں آتے ہیں؟ سندھ کے لوگ تو کسی اور صوبے میں نہیں جاتے۔ بات تو شرجیل میمن کی درست ہے۔ جتنی زیادہ آبادی ہوگی مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے، جگہ جگہ کچرا، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور دیگر مسائل موجود ہیں، ہم اپنا گھر تو صاف رکھتے ہیں لیکن کچرا مقررہ جگہ پر پھینکنے کے بجائے سڑک پر پھینک دیتے ہیں، سڑکوں کی توڑ پھوڑ میں بھی عوام کا حصہ ہے، گلی محلوں میں سڑکوں کی حفاظت شہریوں کی بھی تو ذمہ داری ہے۔ حکومت تو اپنا کام کرہی رہی ہے لیکن یہاں رہنے والے سبھی لوگ جب اس شہر کو اپنا سمجھیں گے تب ہی اس کی حالت سدھرے گی۔

بجٹ پر بحث کی بات ہورہی ہے تو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اجلاس کا ذکر بھی کرلیتے ہیں جہاں شور شرابے نے ایوان کو مچھلی بازار بنا کر رکھ دیا۔ میئر کراچی کی بجٹ تقریر کے دوران نعرے بازی ہوتی رہی۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ شہر کو دو برس میں پیروں پر کھڑا کردیا گیا ہے اس کے لیے سخت فیصلے بھی کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس صرف نالوں کی صفائی پر 60کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ دوسری طرف بجٹ میں کراچی کو نظر انداز کرنے اور کے فور منصوبے سمیت دیگر منصوبوں کے لیے رقم مختص نہ کرنے پر جماعت اسلامی نے کراچی میں احتجاجی مارچ کیا۔ یہ مارچ مسجد خضرا سے صوبائی اسمبلی تک کیا گیا۔ منعم ظفر خان نے احتجاج کی قیادت کی اور شرکا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ وفاق ہو یا صوبہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) یا ایم کیو ایم سبھی نے شہر دشمن بجٹ پیش کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس شہر سے تین ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوتا ہے لیکن یہ شہر پانی اور بجلی سے محروم ہے، بنیادی شہری ڈھانچہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اپنا نوحہ سناتی ہیں، سفری سہولت کے نام پر ٹرانسپورٹ عملی طور پر موجود ہی نہیں۔ منعم ظفر نے شہر کے لیے 500ارب روپے مختص کرنے اور 10ہزار بسوں کا مطالبہ کیا۔ ایک اہم بات انہوں نے یہ بھی کی کہ سیوریج اور صفائی ستھرائی کا نظام اور اختیارات بھی ٹاؤن اور یوسیز کو منتقل کیے جائیں تاکہ شہر کی حالت میں کچھ بہتری آسکے۔ ادھرجماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم کا تربیتی پروگرام نوجوانوں کے لیے روزگار کا اہم ذریعہ بن رہا ہے۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان کے مطابق یہ پروگرام امید سے یقین تک کا سفر ہے اور نوجوانوں کی امید کا مرکز بن چکا ہے۔ کراچی میں اس پروگرام کے تحت 50ہزار طلبہ و طالبات کو فری آئی ٹی کورسز کرائے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے یہ پروگرام دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے مثال ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت میں نہ ہونے کے باوجود قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے عملی کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضرورت ہے تو اس دل کی جس میں قوم کے لیے درد ہو اور اپنے نوجوانوں کو دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے کا جذبہ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے