دانا بادشاہ (ازبکستان کی لوک کہانی)

تحریر : دانیال حسن چغتائی


بہت عرصہ پہلے ایک دور افتادہ ریاست میں یہ روایت تھی کہ ہر سال نیا بادشاہ منتخب کیا جاتا۔ جو شخص تخت نشین ہوتا، وہ ایک معاہدے پر دستخط کرتا کہ سال کے اختتام پر اسے بادشاہت سے سبکدوش ہونا پڑے گا اور پھر اسے ایک سنسان جزیرے پر تنہا چھوڑ دیا جائے گا، جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔

جیسے ہی کسی بادشاہ کی مدت پوری ہوتی، اسے شاہی لباس پہنایا جاتا، ہاتھی پر سوار کر کے شہر کا آخری دورہ کروایا جاتا اور پھر اسے جزیرے کی سمت روانہ کر دیا جاتا۔

ایسے ہی ایک موقع پر، جب رعایا اپنے پرانے بادشاہ کو جزیرے پر چھوڑ کر لوٹ رہی تھی، راستے میں انہیں ایک نوجوان ملا جو ایک تباہ شدہ کشتی سے بسلامت بچ نکلا تھا۔ چونکہ اگلا بادشاہ منتخب کرنا تھا تو عوام نے اسے تخت نشین ہونے کی دعوت دی۔ پہلے تو وہ نوجوان جھجکا مگر حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ایک سال کے لیے بادشاہ بننے پر آمادہ ہو گیا۔ اُسے حکومت کے تمام اصول و ضوابط سے آگاہ کر دیا گیا اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ مدتِ اقتدار مکمل ہونے پر اسے بھی اسی ویران جزیرے پر چھوڑ دیا جائے گا۔

بادشاہ بننے کے تیسرے دن ہی اس نوجوان نے اپنے وزیر سے درخواست کی کہ اُسے وہ جزیرہ دکھایا جائے جہاں ماضی کے بادشاہوں کو چھوڑا جاتا رہا ہے۔ بادشاہ کی خواہش کے مطابق ایک خصوصی قافلہ روانہ ہوا۔ وہ جزیرہ خطرناک جنگلی حیات اور گہرے جنگلات سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر نوجوان بادشاہ نے دیکھا کہ پچھلے بادشاہوں کے ڈھانچے اب بھی وہاں بکھرے پڑے ہیں۔ وہ لرز گیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔

واپس آ کر اس نے کچھ محنتی مزدور منتخب کیے اور اُنہیں ساتھ لے کر دوبارہ جزیرے پرگیا۔ اس نے حکم دیا کہ پورا جزیرہ صاف کیا جائے، تمام خونخوار درندوں کو ہلاک کیا جائے اور غیر ضروری درختوں کو کاٹ کر زمین ہموار کی جائے۔ وہ خود ہر ماہ جزیرے کا معائنہ کرتا۔ جلد ہی وہاں سے خطرناک جانور ختم ہو گئے، اور زمین صاف ہوتی گئی۔

دوسرے مہینے سے جزیرے پر خوبصورت باغات بنائے گئے۔ مختلف قسم کے پالتو جانور وہاں منتقل کیے گئے۔ تیسرے مہینے میں اس نے عظیم الشان محل تعمیر کروایا اور ایک بندرگاہ بھی قائم کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ سنسان جزیرہ ایک حسین و شاداب بستی میں بدلنے لگا۔

یہ بادشاہ نہایت سادہ طبیعت تھا۔ وہ خود کم خرچ کرتا اور زیادہ تر دولت جزیرے کی ترقی پر صرف کرتا رہا۔ دس مہینے گزرنے پر اس نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ وہ اب اس جزیرے میں منتقل ہونا چاہتا ہے۔ لیکن وزرا نے اصرار کیا کہ اسے مدت پوری ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔

بالآخر سال مکمل ہوا۔ روایت کے مطابق اسے شاہانہ لباس پہنایا گیا، ہاتھی پر سوار کر کے شہر کا دورہ کروایا گیا۔ مگر برخلاف روایت، اس بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لوگ حیران ہوئے اور پوچھا: جب باقی سب بادشاہ اس موقع پر روتے تھے، تم خوش کیوں ہو؟

اس نے پرسکون لہجے میں جواب دیا:میں نے وہ دانا لوگوں کی بات سنی تھی کہ: جب تم پیدا ہوتے ہو تو تم رو رہے ہوتے ہو اور دنیا ہنس رہی ہوتی ہے۔ زندگی ایسی گزارو کہ جب تم دنیا سے رخصت ہو تو تم ہنس رہے ہو اور دنیا رو رہی ہو۔میں نے اپنی بادشاہت کے دوران رنگینیوں میں کھو جانے کے بجائے مستقبل کی فکر کی۔ میں نے وہ جزیرہ، جو دوسروں کے لیے موت کا پیغام تھا، اپنے لیے جنت بنا دیا۔ اب میں وہاں سکون سے اپنی باقی زندگی گزاروں گا۔

اسی لیے عقلمند وہی ہے جو عارضی شان و شوکت کو چھوڑ کر مستقبل کی تیاری کرتا ہے، میں نے بھی یہی کیا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے