سندھ کی سیاست کراچی تک !

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ میں حکومت اور اپوزیشن کی ساری سیاست کراچی کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاستدانوں کی نظر میں صوبے کے باقی شہروں، قصبوں اور دیہات کی کوئی وقعت نہیں ۔

 سیاستدانوں کے رویے پر تفصیلی بات آگے چل کر کریں گے پہلے ایک ایسی خبر کا ذکر ضروری ہے جس نے صوبے کے طلبہ و طالبات اور خواتین کو خاصا پُرجوش کردیا ہے اور وہ ہے صوبائی حکومت کی لیپ ٹاپ اور پنک بائیک سکیمیں۔ طلبا میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کیلئے 

مختلف تعلیمی اداروں میں فہرستیں تیار کی جاچکی ہیں اور طلبہ منتظر ہیں کہ کب انھیں لیپ ٹاپ ملیں گے۔ اسی طرح پنک بائیک سکیم کیلئے طالبات اور خواتین دھڑادھڑ فارم بھر رہی ہیں جس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فارموں کی تعداد سکوٹی کی دستیاب تعداد سے زیادہ ہوجائے گی۔ امید ہے کہ جلد ہی لیپ ٹاپ اور سکوٹیز کی تقسیم شروع ہوجائے گی البتہ عوام کی طرف سے ان منصوبوں کی شفافیت پر شکوت و شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جب منصوبے بڑے ہوں تو کہیں نہ کہیں خامی رہ جاتی ہے اور چند مفاد پرست لوگ اس سے سیاسی یا مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت نے یہ سکیمیں عوامی بھلائی کیلئے شروع کی ہیں تو عوام کو بھی نہ صرف حکومت پر اعتماد کرنا چاہیے بلکہ یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ ان منصوبوں میں شفافیت برقرار رکھی جائے گی اور اگر کوئی بے ایمانی کی کوشش کرے گا تو اسے بخشا نہیں جائے گا۔

دوسری طرف ابھی مون سون سیزن کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا کہ بارشوں کی وجہ سے سندھ کے بڑے شہر وں کا برا حال ہو گیا ہے۔ پری مون سون کی معمولی بارش نے ہی کراچی اور حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں نکاسی آب کے ناقص نظام کی پول کھول دی ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے اراکینِ صوبائی اسمبلی نے حکومت، میئر کراچی اور جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمینوں پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ ابھی تو چند ملی میٹر ہی بارش ہوئی اور حکومت کے بلند و بانگ دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔سڑکیں تو پہلے سے ہی ٹوٹی پھوٹی تھیں رہی سہی کسر بارش نے پوری کردی۔ انتظامی نااہلی کی وجہ سے چھوٹے گڑھے بڑے گٹر بن گئے، گلیاں ندی نالے بن گئیں۔ ایم کیو ایم اراکین کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا سارا زور نیوز کانفرنسوں پر ہے اور کارکردگی صفر ہے۔ ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے اراکین ایم کیو ایم کو جواب دیا کہ یہ ایم کیو ایم ہی ہے جس نے شہر کو تباہ کیا، چائنا کٹنگ کی اور اب مگرمچھ کے آنسو بہار ہی ہے۔ ان لوگوں کو شہر کی ترقی نظر نہیں آرہی۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب شہر کی خدمت کیلئے بارش کے دوران بھی بلدیاتی اداروں کے ساتھ سڑکوں پر رہے، سڑکوں سے فوری پانی صاف کیا گیا لیکن ایم کیو ایم والے ڈھٹائی سے الزامات لگا رہے ہیں۔

کراچی کی بات ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں مرتضیٰ وہاب کے خط کا بھی ذکر ہوجائے جو انہوں نے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کو لکھا ہے جس میں شہر اور ٹاؤنز میں سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور دیگر مسائل کے حل کی درخواست کی گئی ہے۔ متن کے مطابق انہوں نے کہا کہ مختلف یوٹیلیٹی اداروں نے اہم شاہراہوں کو کھود ڈالا، گیس کی فراہمی ضروری ہے مگر سڑکوں کی مرمت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ روڈ کٹنگ چارجز ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز کو وصول ہوئے ہیں، رقم ملنے کے باوجود بیشتر ٹی ایم سیز نے سڑکوں کی مرمت نہیں کی۔مرتضیٰ وہاب کے خط پر اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی کا ردعمل آیا اور انہوں نے کہا کہ میئر صاحب کا خط ان کی بے بسی کو ظاہر کرتاہے اور بلدیاتی نظام کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ واضح ہوگیا کہ صوبے میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی بات دعوے اور دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ میئر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے مگر وہ خود تسلیم کررہے ہیں کہ سڑکوں کی مرمت کیلئے رقم تو لی گئی لیکن مرمت نہیں ہوئی۔ علی خورشیدی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں عوام کے نصیب میں صرف تباہ حال سڑکیں ہیں، بلدیاتی نظام کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔علی خورشیدی کی بات کسی حد تک درست ہے، ایک چھوٹی سی مثال تین ہٹی اور گرومندر کے درمیان کی سڑک ہے جو طویل عرصے سے زیرتعمیر ہے۔ زیر تعمیر یوں کہ سڑک تو بنا دی گئی لیکن فٹ پاتھوں کا کام ادھورا رہا۔ کچھ عرصہ قبل کام شروع ہوا اور اس کی حالت دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ غیر سنجیدگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، کیا سڑک کے ٹھیکیدار یا جانچ پڑتال کرنے والے سرکاری افسروں کو کوئی روکنے ٹوکنے اور پوچھنے والا نہیں ہے؟ ذرا سی بارش نے اس سڑک کا حلیہ پھر بگاڑ دیا ہے۔ بڑے بڑے گڑھے عوام کو منہ چڑاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اُن کالی بھیڑوں پر بھی نظر رکھے جو اس کے اچھے کام کا بیڑا غرق کرتی ہیں اور حکومت پر تنقید میں بھی یہی کالی بھیڑیں سب سے آگے بھی ہوتی ہیں۔

عاشورہ کے قریب آتے ہی صوبائی حکومت نے جلوسوں اور عزا داروں کی سکیورٹی کے لیے انتظامات شروع کردیے ہیں۔ یہ پیشگی انتظامات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ سکیورٹی میں کوئی خامی نہ رہ جائے۔ اس مقصد کیلئے امام بارگاہوں اور جلوسوں کے راستوں پر صفائی و نکاسی کا خاص خیال بھی رکھا جائے گا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مقامی حکومتوں کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی ہیں کہ عاشورہ کے دنوں میں صفائی ستھرائی کا خاص دھیان رکھا جائے۔ حکومت تو ہمیشہ سے ہی جلوسوں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرتی ہے لیکن ملکی حالات کے پیش نظر عوام بھی اس بار پہلے سے زیادہ الرٹ رہیں، سکیورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں، انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں اور جلوسوں اور مجالس کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔