ذرا مسکرائیے

تحریر : روزنامہ دنیا


استاد: دہلی میں قطب مینار ہے۔ ایک لڑکا کلاس میں سورہا تھا استاد نے اسے اٹھایا اورغصے سے پوچھا۔ بتائو میں نے ابھی کیا کہا ہے۔شاگرد: دہلی میں کتا بیمار ہے۔٭٭٭

ایک طالب علم نے اپنے ساتھی سے پوچھا: بھئی پیپرز کب ہو رہے ہیں۔

دوست نے جواب دیا، اگلے ماہ سے۔

کوئی تیاری بھی کی ہے۔

ہاں، ایک نیا قلم خریدا ہے، نئے کپڑے سلوائے ہیں، نیا جوتا اور نئی گھڑی خریدی ہے۔

٭٭٭

استاد: بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔

شاگرد: سر یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔

استاد: اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔

٭٭٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

نواسہ رسول ؓ نے کربلا کے میدان میں دین اسلام کو دائمی بقا عطا کی

آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر

عظیم شاہسوار (پانچویں قسط)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے گزارش کی ’’ امیر محترم! موجودہ طریقہ جنگ میں مجھے کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔’’ابن زبیر‘‘! عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بولے: ’’میدان جنگ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی میں نے اس انداز جنگ کو اختیار کیا ہے، اگر تمہارے ذہن میں اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو ضرور بتائو‘‘؟

پھر سے ساتھ!

عائشہ امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی تھی۔ بنگلہ، نوکر چاکر، بہترین اسکول اور ہر سہولت میسر تھی۔ اس کے والدین اکثر کاموں میں مصروف رہتے، سو اس کا زیادہ وقت اپنی ہم جماعت سدرہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ سدرہ، دراصل عائشہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی رضیہ کی بیٹی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول اور ایک ہی کلاس میں تھیں۔ سدرہ خاموش طبع اور محنتی لڑکی تھی۔ کتابوں سے اسے خاص لگاؤ تھا۔