پھر سے ساتھ!

تحریر : دانیال حسن چغتائی


عائشہ امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی تھی۔ بنگلہ، نوکر چاکر، بہترین اسکول اور ہر سہولت میسر تھی۔ اس کے والدین اکثر کاموں میں مصروف رہتے، سو اس کا زیادہ وقت اپنی ہم جماعت سدرہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ سدرہ، دراصل عائشہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی رضیہ کی بیٹی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول اور ایک ہی کلاس میں تھیں۔ سدرہ خاموش طبع اور محنتی لڑکی تھی۔ کتابوں سے اسے خاص لگاؤ تھا۔

عائشہ کی چند سہیلیاں سدرہ کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ وہ اسے حقیر سمجھتیں اور اکثر اس کا مذاق بھی اْڑاتیں۔ ایک دن عائشہ کے گھر سب سہیلیاں جمع ہوئیں۔ سدرہ ایک کونے میں بیٹھی انگریزی کا سبق دہرا رہی تھی۔

’’عائشہ، کل ٹیسٹ ہے، ہم تھوڑی سی تیاری کر لیں؟‘‘ سدرہ نے نرمی سے کہا۔

مہوش فوراً بولی: ’’اوہو! تو تم اب ہمیں پڑھائی کا درس دو گی؟ عائشہ بعد میں دیکھ لے گی، تم اپنے کام سے کام رکھو‘‘۔

عائشہ تھوڑا جھجکی مگر بولی: ’’سدرہ، تم چلو، میں آتی ہوں‘‘۔کچھ دیر بعد عائشہ کتابیں لے کر سدرہ کے پاس پہنچی لیکن وہ ذہنی طور پر تھکی ہوئی تھی۔ بمشکل دو صفحے دیکھے اور پھر سو گئی۔ اگلے دن کا نتیجہ بہت حیران کن تھا۔ عائشہ انگریزی کے ٹیسٹ میں پہلی بار فیل ہو گئی تھی۔ 

مہوش اور باقی لڑکیوں کو تو جیسے موقع مل گیا۔ وہ عائشہ کو سدرہ کے خلاف بھڑکانے لگیں: ’’تم سدرہ کے ساتھ رہ کر نیچے جا رہی ہو، وہ نوکرانی کی بیٹی ہے، تم اپنی حیثیت کو بھی خراب کر رہی ہو!‘‘

سدرہ اور عائشہ میں فاصلے بڑھنے لگے۔ یہاں تک کہ عائشہ نے اپنے والد سے سدرہ اور اس کی ماں کو اوپر والے حصے سے نکال کر پچھلے کوارٹر میں منتقل کروا دیا۔ ایک روز جھگڑے کے بہانے اس نے کہا: ’’بابا! سدرہ مجھ سے اسکول میں بدتمیزی کرتی ہے، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا‘‘ ۔

اس کے والد نے سدرہ کو اسکول جانے سے روک دیا۔ سدرہ خاموشی سے ماں کے ساتھ کام میں لگ گئی۔کئی ہفتے گزر گئے۔ پھر ایک دن سدرہ نے اپنے والد سے کہا:ابو، مجھے سرکاری اسکول میں پڑھنا ہے‘‘۔

باپ نے ہامی بھر لی۔ سدرہ نے دن رات محنت کی۔ چند ماہ بعد اسکول میں اعلان ہوا کہ ہونہار طلبہ اسکالرشپ کے امتحان میں حصہ لے سکتے ہیں۔ سدرہ نے نام لکھوایا اور بہترین کارکردگی کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔

ٹی وی پر جب اس کی کامیابی کی خبر آئی تو عائشہ اور اس کی دوستوں کو بھی خبر ہو گئی۔ سب کو حیرت ہوئی، مگر عائشہ کے دل میں خلش سی جاگ گئی۔

 عائشہ سکول سے گھر پہنچی تو سدرہ کے پاس گئی، اس سے لپٹ کر رو پڑی،’’مجھے معاف کر دو، میں تمہیں پہچان نہ سکی‘‘۔

سدرہ بھی مسکرا دی، ’’دوستی میں معافی نہیں ہوتی، بس ساتھ نبھایا جاتا ہے‘‘۔یوں دونوں ایک بار پھر سچی اور پکی سہیلیاں بن گئیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭