سوء ادب
غالب کی غزل جس کا مطلع ہے عشق تاثیر سے نومید نہیں جاں سپاری شجرِ بید نہیں
اس میں غالب نے یہ قافیے استعمال کیے ہیں: جمشید ، خورشید ، بھید ، جاوید اور امید۔ اس میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ غالب نے کونسا قافیہ روا رکھا ہے کیونکہ اس میں اردو کا ایک ہی قافیہ بھید ہے جو دوسرے کافیوں سے لگا نہیں کھاتا جبکہ دوسرے قافیے بھی مختلف ہیں اور ان میں جمشید بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ زبر سے جبکہ دوسرے کافیے زیر سے ہیں البتہ ایک قافیہ ’’امید‘‘ دو اوزان میں ہے، ایک پر شد ہے تو دوسرا شد کے بغیر۔اشعار کے اگر قوافی مقرر کر دیے گئے جائیں تو ان کی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ جس غزل میں قوافی کی پاسداری نہ ہو اسے غزل نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں تک بھید کا تعلق ہے تو فارسی زبان میں بھید کا کوئی لفظ قافیہ نہیں ہے اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس غزل میں اصل قافیہ بھید ہے جبکہ اس سے کوئی بھی دوسرا قافیہ لگا نہیں کھاتا جبکہ غزل میں قافیے کے وزن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بھی ملا حظہ ہو کہ جمشید زبر سے ہے ،یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ غالب خود قوافی کے اوزان کا لحاظ نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی اجازت دے دی ہے، جس سے غزل کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔
غالب نے کئی اور غزلوں میں بھی یہ رویہ روا رکھا ہے،بظاہر جس کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ غالب کو خود بھی اس بات کا اچھی طرح سے احساس تھا کہ ان کے بعد آنے والے اس کی پیروی ضرور کریں گے اور اکثرنے یہ کام کیا بھی ہے، تاہم کسی طور سے بھی اس کی تعریف یا تائید نہیں کی جاسکتی ۔ یقینا یہ ایک گمراہ کن رویہ ہے ، افسوس ناک بھی ہے اور باعثِ تشویش بھی کیونکہ یہ ایک نہایت ذمہ دار شاعر نے روا رکھا ہے۔
اگلی نشستوں میں ہم غالب کی کچھ اورغزلوں کا ذکر کریں گے جن میں انہوں نے یہ رویہ اپنایا ہے جس کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی، حالانکہ غالب اگر چاہتے تو اس کی بجائے غزل کے قافیوں کے اوزان کی حرمت کو برقرار رکھ سکتے تھے جو اُن کے شایانِ شان بھی تھا اور ان کے لیے ضروری بھی تھا تاکہ لوگ گمراہ ہونے سے بچے رہیں۔کسی بڑے شاعر کو یہی زیبا ہے۔
علالت کی وجہ سے کالم میں جو کسر رہ گئی ہے اس کے حوالے سے اپنی ایک بھولی بسری غزل پیشِ خدمت ہے……!!
غزل
بار بردار ہے گدھا گاڑی
اپنی تو یار ہے گدھا گاڑی
میرے بچوں کو پالتی ہے یہ
پرورش گار ہے گدھا گاڑی
آتا جاتا بھی ہوں کہ میرے لیے
شِورلے کار ہے گدھا گاڑی
سست لگتی ہے دور سے ورنہ
برق رفتار ہے گدھا گاڑی
رات کو الوداع کہتی ہے
صبح آثار ہے گدھا گاڑی
اونٹ گھوڑے کی اب نہیں پروا
مجھ سے دوچار ہے گدھا گاڑی
کسی گاہک کے انتظار میں ہے
یعنی تیار ہے گدھا گاڑی
صاف گونگا ہوں میں تو اس کے بغیر
میرا اظہار ہے گدھا گاڑی
جب سے بیمار ہے گدھا تو ظفرؔ
تب سے بیکار ہے گدھا گاڑی
آج کا قطع
یہ جو ہر دم اْچھالتا ہوں،ظفر
ایک اٹھنّی ہے وہ بھی کھوٹی ہے