احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک

تحریر : پروفیسر صابر علی


احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم رول نیچر کا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’ میں جب اپنے بچپن کا تصور کرتا ہوں تو ماں کے بعد جو چیز میرے ذہن پر چھا جاتی ہے وہ حسن فطرت ہے۔ جب بھی میں اپنا ماضی یاد کرتا ہوں تو لہلہاتے ہوئے کھیتوں، امڈ تے ہوئے بادلوں، دھلی ہوئی پہاڑیوں اور چکراتی، بل کھاتی اور قدم قدم پر پہلو بچاتی ہوئی پگڈنڈیوں کی ایک دنیا میرے ذہن میں آباد ہو جاتی ہے ‘‘۔

کسی فنکار کی شخصیت پر گفتگو کرنے کیلئے ان حالات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہو تا ہے جن میں فنکار پرورش پا کر بڑا ہوتا ہے۔  ایک فرد یا فنکار جب کسی معاشرے میں پل  کر جوان ہوتا ہے تو اس کی شخصی تعمیر میں گھریلو ماحول، سماجی و معاشرتی رسم و روایات، معاشی اور تہذیبی محرکات اور تعلیمی فضا وغیرہ بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ سارے عوامل جب ایک فرد کی شخصیت کو بطور فنکار مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو فرد کی حیثیت سے فنکار اپنی انفرادیت کا احساس دلاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصی تعمیر میں بھی یہ سارے عوامل کار فرما رہے ۔ جس عہد میں احمد ندیم قاسمی پیدا ہوئے پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ انگریز دنیا کے بیشتر حصے پر قابض ہو چکے تھے، سیاسی منظر نامہ یہ تھا کہ ایک طرف فسطائی طاقتیں آزادی چاہنے والوں کا سر کچلنے  کیلئے کمر بستہ ہو رہی تھیں تو دوسری طرف ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے والے صف بستہ ہو رہے تھے۔ تیسری طرف انگریز سامراج کی پالی ہوئی جماعتیں آزادی کی تحریک کو صدمہ پہنچانے کیلئے عوام کو  فرقوں میں بانٹنے کی کوشش میں لگ گئی تھیں۔ ساتھ ہی ملک کا ادبی منظر نامہ بھی بدل رہا تھا۔

 ایسے سماجی اور ملکی حالات میں احمد ندیم قاسمی احمد شاہ نام لے کر پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش موضع انگہ ضلع خوشاب، پنجاب ہے۔ آپ کے والد ماجد کا نام غلام نبی، عرف نبی چن تھا جن کا انتقال 1924ء میں ہو گیا تھا جبکہ ان کی والدہ 1952ء تک حیات رہیں۔اپنی حیات کے بارے میں خود احمد ندیم قاسمی نے ایک مضمون ’’چند یادیں‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نبھانے کیلئے ریشم پہنتے تھے اور خالی پیٹ سو جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسہ جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دکھ پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹھ اور میری کتابوں کا ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتا تھا۔ گھر سے باہر احساسِ برتری رہتا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چور چور ہو جاتے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ خاندان کے باقی سب گھرانے کھاتے پیتے تھے، زندگی پر ملمع چڑھائے رکھنے کا تکلف ہمارے ہی نصیب میں تھا۔ والد گرامی پیر تھے ۔یاد الٰہی میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگی تھیں کہ مجذوب ہو گئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ان کی بیوی ایک بیٹی اور دو بیٹوں اور خود ان کیلئے  کل مبلغ ڈیڑھ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدنی میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔گھرانے کی عزت کے اس احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور  ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فنکار بنایا ہو‘‘۔ 

احمد ندیم قاسمی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ کٹر مذہبی یا مولویانہ یا صوفیانہ انداز کا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں انتہائی درجہ کی اقتصادی تنگ دستی سے بھی گزرنا پڑا لیکن  اس کے ساتھ ہی ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ تب کے احمد شاہ کے سامنے دہری زندگی جینے کی بھی مجبوری تھی۔ ایک طرف جب وہ گھر سے نکلتے تو بدن پر صاف شفاف کپڑے ہوتے، سکول جاتے تو صاف ستھرا بستہ ان کے پاس ہوتا دوسری طرف پیٹ میں روکھی روٹی کے چند لقمے ہوتے۔ یا اماں سے ایک پیسہ نہ مل پانے کی محرومی ہوتی گویا ایک تضاد تھا جس سے احمد شاہ نام کا یہ بچہ گزر رہا تھا۔ احمد شاہ نام کے اس غیر معمولی حساس بچے نے بچپن میں ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ غریبی کے معنی کیا ہیں؟ دکھاوا کسے کہتے ہیں۔ اس کربناک صورتحال نے احمد شاہ جیسے حساس بچے پر کیا اثرات مرتب کئے ہوں گے اور اس کی شخصیت کو بنانے اور اسے ایک خاص سمت کی طرف لے جانے میں کیا اہم رول ادا کیا ہوگا۔

جیسا کہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے کہ شاید انہیں کربناک حالات نے انہیں فنکار بنایا، یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ایک اور بات ہے جو قاسمی صاحب کی انفرادیت کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ کہ احمد ندیم قاسمی کی جگہ کوئی معمولی اور عمومی ذہن کا بچہ انہیں حالات میں پرورش پاتا تو وہ مجرمانہ زندگی کی طرف  بڑھ سکتا تھا، گھر چھوڑ کر بھاگ بھی سکتا تھالیکن احمد ندیم قاسمی کو شروع ہی سے عام بچوں سے زیادہ حساس ذہن ملا تھا، ایسا ذہن جن ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو ودیعت کیا جاتا ہے وہ عام بچوں کی طرح ان درد ناک حالات میں ٹوٹ کر بکھرتے نہیں بلکہ اوائل عمر کی ان تلخیوں کو فن کی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

1921ء میں احمد ندیم قاسمی موضع انگہ کی ہی ایک مسجد سے ملحق مکتب میں قرآن کا درس لینے کیلئے داخل کئے گئے۔ تقریباً ایک سال درسِ قرآن لینے کے بعد 1921ء کے اواخر میں گورنمنٹ سکول کیمبل پور میں داخل ہوئے اور یہیں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوئے اور 1935ء میں بی اے کی سند حاصل کی ۔ان نامساعد حالات میں بھی احمد ندیم قاسمی نے تعلیم کا جو سلسلہ جاری رکھا وہ صرف ان کی اپنی لگن اور محنت کا نتیجہ تھا۔ کسی مالی فراغت یا اعانت کے بل پر نہیں ایسے بچے جو اپنی تعمیر خود کرتے ہیں ان میں ایک الگ طرح کی خود اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اگر ذہن تخلیقی ہو تو وہ اپنی محرومیوں کے ازالے کے طور پر ابلاغِ فن کا راستہ چن لیا۔ ذہن چونکہ سہ جہتی تھا اس لئے ان کا فن کسی ایک سمت تک محدود نہ رہا۔ شاعری سے ابتدا کرکے وہ افسانہ نگاری، انشا پردازی اور صحافت کے ساتھ ادب کی دوسری اصناف تک پہنچے اور سبھی اصنافِ سخن میں اپنا منفرد اور مخصوص مقام قائم کیا۔

احمد شاہ جب احمد ندیم قاسمی بنے تو انہوں نے اپنی فنی زندگی کی ابتدا شاعری سے کی۔ یہ واقعہ بھی دلچسپ ہے کہ احمد شاہ جب میٹرک میں زیر تعلیم تھے تب انہوں نے اپنا ایک شعر اصلاح کی غرض سے کسی استاد شاعر کی خدمت میں پیش کیا۔ استاد نے شعر کی اصلاح فرمائی اور تخلص بھی تجویز کر دیا۔  لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی شاعری شروع ہی کرنے والے احمد شاہ کو استاد کی طرف سے کی گئی اصلاح مطمئن نہ کر سکی  لیکن استاد کا دیا ہوا تخلص ’’ندیم‘‘ بخوشی قبول کر لیا۔ یہ واقعہ احمد ندیم قاسم کی ذہنی ساخت کی ایک اور منفرد مثال ہے اور وہ یہ کہ  دسویں جماعت کا بچہ فنی معاملے میں تو اتنا بیدار تھا کہ وہ روایتی انداز کی اصلاحوں کو فیصلہ کن طریقے پر رد یاناپسند کر سکتا تھا لیکن اپنا نام یا تخلص رکھنے کے معاملے میں اتنا لاپروا کہ شعر کہنے سے پہلے یہ ضرورت ہی نہ سمجھی کہ شاعر کی حیثیت سے کیا تخلص اختیار کرے۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنی ادبی زندگی میں تقریباً سترہ افسانوی مجموعے دس شعری مجموعے، متعدد تنقیدی کتابیں ادبی دنیا کو دیں۔ یہ ایسا سرمایہ ہے جس کی قدرو قیمت کا آسانی سے تعین نہیں کیا جا سکتا۔

احمد شاہ نے احمد ندیم قاسمی بننے سے پہلے گائوں کی مفلوک الحال زندگی بھی دیکھی تھی برسات میں ٹپکتی ہوئی گھر کی چھت بھی دیکھی تھی اور سول آفیسر چچا کا ڈرائنگ روم بھی دیکھا تھا۔ ان متضاد زندگیوں سے گزرتے ہوئے احمد شاہ کا حساس ذہن جیسے جیسے بالیدہ ہوتا  گیا ویسے ویسے ان کی شخصیت میں درد مندی اور گداز بھی پیدا ہوتا گیا۔ کیونکہ فنکار ہونے  کی حیثیت سے ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ یہ درد مندی اور دل سوزی ان کے شعری اور افسانوی ادب میں شدت کے ساتھ ابھری ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کی تعمیر میں ایک اور سب سے اہم رول نیچر کا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں: ’’ میں جب اپنے بچپن کا تصور کرتا ہوں تو ماں کے بعد جو چیز میرے ذہن پر چھا جاتی ہے وہ حسنِ فطرت ہے۔ یقیناً یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مظاہرِ فطرت سے موانست کا یہ جذبہ کب کیسے اور کیوں پیدا ہوا۔ مجھے تو بس اتنا معلوم ہوا ہے کہ جب بھی میں اپنا ماضی یاد کرتا ہوں تو لہلہاتے ہوئے کھیتوں، امڈ تے ہوئے بادلوں، دھلی ہوئی پہاڑیوں اور چکراتی، بل کھاتی اور قدم قدم پر پہلو بچاتی ہوئی پگڈنڈیوں کی ایک دنیا میرے ذہن میں آباد ہو جاتی ہے ۔دور نیلے پہاڑ کے دامن میں آئینے کی طرح چمکتی ہوئی جھیل پر سورج کی کرنوں کی سڑک، بادل کی گرج کے ساتھ تانبے کی چادروں کی طرح بجتے ہوئے پہاڑکبھی کبھی میرے افسانوی اور شعروں کا پس منظر بن جاتے ہیں، میری زندگی کے اسی دور کا جمع کیا ہوا اثاثہ ہے جب میں وادیوں اور گھاٹیوں میں اپلے چننے نکلتا تھا یا اپنے میلے کپڑوں کی پوٹلی لئے اونچی پہاڑیوں پر پیالوں کے سے تالابوں میں کپڑے دھونے جاتا تھا‘‘۔

احمدندیم قاسمی کی ایک غزل

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی

دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا

لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے

تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے

تری الفت نے محبت مری عادت کر دی

پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ

تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا

راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

منتخب اشعار

میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے

یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے

………

 

میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں

مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے

………

یکساں ہیں فراق و وصل دونوں

یہ مرحلے ایک سے کڑے ہیں

………

لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہیں

میں تو کہتا ہوں زمانے پہ ہے سایا تیرا

………

غم جاناں غم دوراں کی طرف یوں آیا

جانب شہر چلے دختر دہقاں جیسے

………

مر جاتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں

میں تیرے بغیر جی رہا ہوں

………

تم مرے ارادوں کے ڈولتے ستاروں کو

یاس کے خلاؤں میں راستہ دکھاتے ہو

………

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

………

اس گنہ پر مری اک عمر اندھیرے میں کٹی

مجھ سے اس موت کے میلے میں چراغاں نہ ہوا

………

انداز ہو بہ ہو تری آوازِ پا کا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

………

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی

یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

………

یاد آئے ترے پیکر کے خطوط

اپنی کوتاہیٔ فن یاد آئی

………

چاند جب دور افق پر ڈوبا

تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی

………

دن شعاعوں سے الجھتے گزرا

رات آئی تو کرن یاد آئی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔