عمارت گرنے کاواقعہ کئی سوال چھوڑ گیا

تحریر : طلحہ ہاشمی


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہفتہ بھر قبل پانچ منزلہ عمارت منہدم ہوگئی۔لاشیں نکالنے اور ملبہ ہٹانے میں ریسکیو اداروں کو 60گھنٹے لگے۔ حادثے میں 27افراد جان سے گئے۔

صوبائی حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ کو عہدے سے ہٹا دیا، کئی افراد کو معطلی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔عمارت گرنے کا واقعہ لیاری کے علاقے میں ہوا۔ پوری دنیا میں حادثات ہوتے ہیں جانیں بھی جاتی ہیں لیکن یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ امدادی اداروں کا ردعمل کتنا تیز تھا؟ ان کے پاس حادثے سے نمٹنے کے لیے کتنی تیاری اور آلات تھے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ ہم ان تمام سوالات کا جواب دینے میں ناکام ہوگئے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ عمارت کو خطرناک قرار دے کر 2022ء میں نوٹس جاری کیا گیا، اُس وقت عمارت میں بیسمنٹ اور تین منزلیں قائم تھیں جبکہ تعمیراتی اجازت نامہ صرف تین منزلوں کا تھا۔ تیسری منزل تو نہ گرائی گئی البتہ مخدوش عمارت پر دومنزلیں مزید تعمیر کرلی گئیں۔رپورٹ کے مطابق تیسری منزل کو گرانے کی ہدایت کے ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ بقیہ منزلوں کی کسی ماہر تعمیرات کے زیرنگرانی مرمت کرائی جائے۔ کاغذات میں یہ عمارت تین منزلہ اور مخدوش نظر آتی ہے یعنی جب دو منزلیں بنائی جارہی تھیں تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نہ کسی افسر نے چیک کیا اور نہ ہی کوئی رپورٹ دی۔ اسی طرح عمارت کا بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن بھی ختم نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ نے مکینوں کو نوٹسز جاری کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلی تھی۔ 

اب آتے ہیں امدادی اداروں کے ردعمل کی طرف۔ حادثہ ہونے کے بعد ریسکیو ٹیمیں پہنچ گئیں، ان کے پاس بساط بھر آلات بھی تھے، انہوں نے لوگوں کو زندہ نکالنے کی یقیناً مقدور بھر کوششیں کی ہوں گی لیکن چھوٹے سے رقبے پر تعمیر شدہ پانچ منزلہ عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ڈھائی دن لگ گئے۔ یعنی یہ عمارت اگر زیادہ بڑے رقبے اور زیادہ منزلوں والی ہوتی تو کیا ہوتا؟ ہفتوں لگ جاتے۔ یہاں مقصد امدادی اداروں پر تنقید نہیں ہے تاہم انہیں اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور آلات پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ ہوجائے تو کیا ہوگا۔ حکومتی اداروں کو ایک رپورٹ یہ بھی بنانی چاہیے کہ کروڑوں لوگوں کے شہر میں کام کرنے والے امدادی اداروں کا کیا حال ہے، ان کے پاس عملہ اور سامان کتنا ہے، ان کی پیشہ ورانہ تربیت جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور اگر نہیں ہے تو اسے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ حادثے کے بعد سیاسی رہنماؤں نے دورے کیے، بڑے وعدے وعید بھی کئے گئے لیکن پتا یہ چلا کہ امدادی کارروائیوں کے دوران عمارت کے متاثرین کو نہ کسی عارضی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا نہ ہی ان کی دلجوئی اور رہنمائی کے لیے عملہ تعینات تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس ایسا تربیت یافتہ عملہ یا کوئی ادارہ ہے ہی نہیں جو متاثرین کو نفسیاتی طور پر پہنچنے والے صدمے کے وقت ان کے ساتھ ہو، ان کی مدد اور رہنمائی کرے۔ 

اب آتے ہیں ایک اور اہم مسئلے کی طرف کہ منہدم عمارت سے ملحق کئی عمارتیں خطرناک قرار دی جاچکی ہیں، انہیں گرایا جائے گا، مکینوں کو سامان نکالنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ لوگ ناراض ہیں، کہتے ہیں کہاں جائیں، کوئی دوسرا ٹھکانہ بنانا آسان نہیں۔ کوئی رشتے دار بھی کب تک رکھے گا۔ سب سفید پوش اور غریب لوگ ہیں، ہر ایک کے اپنے مسائل ہیں۔ مرنے والوں کے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان ہوچکا ہے لیکن دوسری عمارتوں کے زندہ مکین کیا کریں؟ حکومت اتنا تو کرسکتی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کردے۔ انہیں اتنی مالی مدد ضرور فراہم کرنی چاہئے کہ یہ کہیں اور آشیانہ بنا سکیں۔ عمارت گرنے سے متاثرہ ایک بزرگ کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا کہ جن کے تین بیٹے، دوبہوئیں اور اہلیہ اس حادثے میں چل بسیں، ان کی تین ماہ کی پوتی ہی بچ پائی ہے۔ میڈیا پر چلنے والی ان کی گفتگو نے ہر ایک کو رنجیدہ کردیا ہے۔ متاثرین میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت نے شہر کی مخدوش اور غیرقانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صوبے میں 750 کے قریب اور کراچی میں 550 سے زائدعمارتیں خطرناک قرار دی جاچکی ہیں اور انہیں گرانے کا فیصلہ مرحلہ وار کیا جائے گا۔وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف سخت قانون لایا جائے گا۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو قوانین موجود ہیں کیا ان پر عمل ہورہا ہے؟ کراچی سمیت صوبے بھر میں لاکھوں عمارتیں ہیں جنہوں نے تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ کراچی میں تو 15،20منزلہ ایسی متعدد عمارتیں ہیں جو نئی تعمیر ہوئی ہیں لیکن انہیں دیکھ کر خوف آتا ہے کہ چھوٹے سے پلاٹ پر بانس کی طرح عمارت بنا دی گئی، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چھوٹی آبادیوں میں تو حال اس سے بھی برا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ طاقتور ہو یا عام آدمی سب سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، قانون توڑنے والے کو کسی صورت نہ بخشا جائے۔ 

کچھ لوگ سانحے پر سیاست چمکانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ سیاسی رسہ کشی کے بہت مواقع آئیں گے اپنا زورِ خطابت اور صلاحیت وہاں دکھا لیجیے گا، یہاں تو سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔کوئی نظام بنائیں کہ ایسا واقعہ پھر رونما نہ ہو۔ اگر حکومت یہ ٹھان لے کہ لیاری میں گرنے والی یہ آخری عمارت ہوگی تو یہ نا ممکن نہیں،کہتے ہیں ہمت مرداں مددِ خدا!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔