اسلام محبت والفت کا دین

تحریر : ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان


’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے نہ پھیرو‘‘(صحیح مسلم) ’’کیا میں تمہیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں ؟ وہ سخت مزاج ،بدخواور تکبر کرنیوالے ہیں‘‘(صحیح بخاری) اللہ کے ہاں ،قیامت کے دن، مرتبے کے اعتبار سے ،سب سے بد تر وہ شخص ہو گا جس کو لوگ اس کے شر کی وجہ سے چھوڑ دیں‘‘(صحیح بخاری) ’’ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکرکرے۔(کنزالعمال)

اسلام محبت و الفت کا دین ہے۔یہ ان عوامل اور اسباب کی طرف رہنمائی کرتاہے، جن کی وجہ سے باہمی الفت و محبت پروان چڑھتی ہے۔ شیطانی طاقتوں کو یہ بات قطعا ًگوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں پیار و محبت سے زندگی گزار یں۔ وہ دن رات کوشش کرتے ہیں کہ ان کی محبت کو نفرت میں اور قربت کو دوری میں بدل دیں، مسلمانوں میں بغض و عداوت پیدا کرنا اور ان کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنا اس کی اوّلین ترجیح ہے۔ اسلام نے نفرت کا سبب بننے والے ان تمام تر اقوال وافعال کی بیخ کنی کی اور ان پر سخت وعیدیں سنائیں تا کہ ایسے ان تمام عناصر کی حوصلہ شکنی ہو، جو کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کے بارے میں اپنے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں یا نفرت انگیز چیزوں کو رواج دیتے ہیں ہے۔ ذیل میں چند ان اسباب کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے آپس میں نفرتیں پھیلتی ہیں تا کہ ان سے بچا جا سکے اور ان اسباب کا ذکر کیا جائے گاجن کی وجہ سے نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں تا کہ ان کو اختیار کیا جاسکے۔

باہمی نفرت کے اسباب

 وہ اسباب جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے سے نفرت کرنے لگتاہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

سخت رویہ: بلا وجہ سختی کرنے والے لوگ کبھی دوسروں کو اپنے قریب نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے دلوں میں اپنا احترام اور محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ بات بات پر ڈانٹنا، جھڑک دینا، خونی رشتوں کو بھی توڑ دیتا ہے جبکہ نرم لہجہ ،نرم گفتگو اور اچھا اخلاق ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے غیر بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺسے فرمایا: (اے حبیبِؐ!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپؐ ان کیلئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپؐ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپؐ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپﷺ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کیلئے بخشش مانگا کریں (آل عمران:159)۔ سخت مزاج لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں ؟ وہ سخت مزاج ،بدخواور تکبر کرنیوالے ہیں(صحیح بخاری:4918)۔ 

لوگوں کو اذیت دینا، نفرت اور دوری کا باعث بنتا ہے، انسان تو انسان جانوربھی اذیت دینے والے افراد سے دور بھاگتے ہیں۔ ایسے افراد کو نبی کریمﷺ کے مبارک فرامین پر غور کرنا چاہیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں ،قیامت کے دن، مرتبے کے اعتبار سے ،سب سے بد تر وہ شخص ہو گا جس کو لوگ اس کے شر کی وجہ سے چھوڑ دیں‘‘(صحیح بخاری: 6232)۔ نبی کریمﷺ کاارشادگرامی ہے: جس نے مسلمان کو تکلیف دی،اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی (معجم الاوسط: 3607) ۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: ’’ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے، تکلیف پہنچائے یا اس کیساتھ مکر کرے (کنزالعمال: 7822)۔

وہ لوگ جو ہمسائیگی میں رہتے ہیں وہ اگر کوئی ان سے پریشان ہے تو انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے نبی کریمﷺ کا ارشادگرامی ہے: ’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، پوچھا گیا کون ہے وہ؟آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا ہمسایہ اس کی اذیت سے محفوظ نہیں‘‘ (صحیح بخاری:6016)

غرور و تکبر

متکبر شخص کبھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام نہیں بن سکتا۔ لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ متکبر خود کو دوسروں سے بہتر اور اعلیٰ خیال کرتا ہے۔ تکبر کبھی مال و دولت کی وجہ سے، کبھی عہدہ و منصب کی وجہ سے اور کبھی حسن و خوبصورتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تکبر کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے۔ رسول کریم ﷺکافرمان ہے : جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو،وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک شخص نے عرض کیا ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اس کاجوتا اچھا ہو۔ تو آپﷺ نے فرمایا:اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے(صحیح مسلم: 91)۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: ’’کسی بھی شخص کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے(صحیح مسلم: 2564)

طعنہ زنی اور مذاق اڑانا 

 بعض لوگ دوسروں کو ان کی غربت، ان کی برادری ، رنگ ونسل یا کسی پیدائشی نقص کا طعنہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی عمل کی وجہ سے یا کسی غلطی کی وجہ سے مذاق اڑا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسا رویہ رکھنے والوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مومن طعنہ زنی کرنے والا،لعنت کرنے والا نہیں ہوتا (الادب المفرد، ص237)۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کا مذاق اڑانے سے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے وہ لوگ ان (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ،ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانیوالی عورتوں) سے بہتر ہوں‘‘ (الحجرات11:49)۔

دھوکہ اور مکر و فریب

دھوکہ دینے اور مکر و فریب کرنے والے افراد دوسروں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔دھوکہ دینے والا نہ صرف اپنا اعتماد کھو دیتا ہے بلکہ وہ لوگوں کی نظر میں اس قدر معیوب ہو جاتا ہے کہ لوگ اسے اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے ہم سے دھو کہ کیا، وہ ہم میں سے نہیں، مکر اور دھوکہ دینے والا آگ میں ہے(صحیح ابن حبان: 5559)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں (صحیح مسلم: 283)۔عصرحاضرمیں دھوکہ ایک معمول بن چکاہے عیب دار اور خراب چیزیں بڑی چالاکی سے لوگوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔ خراب اور ملاوٹ شدہ چیزیں اصلی اور خالص ظاہر کر کے بیچ دی جاتی ہیں ، حالانکہ اس طریقے سے اشیاء بیچنا شریعت اسلامی کے تجارتی اصولوں کے برعکس ہے۔ 

نفرتوں کے خاتمے کاحل

 نفرتوں کومٹانے اورمحبت والفت کوپروان چڑھانے والے امور حسب ذیل ہیں۔

سلام کہنا

 سلام ایک مسلمان کا دوسرے کیلئے تحفہ اور حق ہے۔شریعت اسلامیہ نے اسے امت مسلمہ کی باہمی محبت اورالفت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کو سلام کہتا ہے تو یہ اس کیلئے سلامتی ، رحمت اور برکت کی دعا کرتا ہے۔ جب یہ دُعادل سے اٹھتی ہے تو محبت کا باعث بنتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو سلام تو کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔سلام دل سے کہا جائے تو پھر محبت پیدا ہوتی ہے ۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: تم اس وقت تک جنت نہیں جاسکتے جب تک مومن نہ بن جاؤ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جب تم اسے اختیار کرو تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے ، آپس میں سلام عام کیا کرو (صحیح بخاری:54)

مسکرا کر ملنا

دوسروں کو مسکرا کر اورخندہ پیشانی سے ملنا بھی ایک صدقہ ہے۔ مسکراہٹ بہت قیمتی سرمایا ہے جبکہ اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ اس پر اجر و ثواب ملتاہے۔رسول کریم ﷺنے فرمایا: ’’اپنے بھائی سے تمہارا مسکراکر ملنابھی ایک صدقہ ہے‘‘ (جامع ترمذی: 1956)۔

ملاقات اور تیمارداری کیلئے جانا

اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے، بغیر کسی دنیاوی مفاد کے، مسلمان بھائی سے ملاقات یا تیمارداری کیلئے جانا ایک انتہائی عظیم عمل ہے۔ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے ، دوسرے کے دل میں احترام بھی بڑھتا ہے اور جنت میں گھر کی نوید بھی ملتی ہے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے: ’’ جس نے مریض کی عیادت کی یا کسی مسلمان بھائی کی زیارت کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے، تمہاری زندگی مبارک ہو ،تمہارا چلنا مبارک ہو اور تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کر لیا‘‘(جامع ترمذی: 2008)

تحائف کا تبادلہ

معاشرتی زندگی میں پیار و محبت بڑھانے میں باہمی ہدایاو تحائف وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تحفہ محبت کی کنجی ہے، تحفہ محبت کو پروان چڑھاتا ہے، دوست احباب، عزیز و اقارب ،رشتہ داروں، محلے داروں اور استاد شاگرد سے خلوص و محبت کا اظہار کرنے اورمحبت کو اور زیادہ بڑھانے کیلئے تحفے تحائف اور ہدایا وغیرہ کا تبادلہ باہمی دلوں کے جوڑنے اورباہمی رنجشوں اورنفرتوں کو مٹانے کا عمل ہے۔رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہو سکے‘‘ (موطا امام مالک:1264)۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ آپس میں ہدیے، تحفے دیاکرو، کیونکہ ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش(نفرتوں) کو دور کرتاہے اور ایک پڑوسی دوسری پڑوسی کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے ،اگرچہ وہ بکری کے کھر ہی (کا ہدیہ) کیوں نہ ہو (جامع ترمذی: 2130)۔

خیر خواہی کرنا

 دین اسلام خیر خواہی کا دین ہے ، انسان جس طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ خیر خواہی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ دینی اعتبار سے بھی اور دنیاوی اعتبار سے بھی۔ خیر خواہی کے سب سے زیادہ حق دار گھر کے افراد ہیں ،جہاں ان کی دنیا کی بہتری کیلئے کوشش اور محنت کی جاتی ہے تو وہاں ان کی دینی اعتبار سے بھی خیر خواہی کی جائے۔ دینی اعتبار سے خیر خواہی نہ کرنے والا قریبی ہو کر بھی دشمن ہی رہتا ہے۔ اس لیے کہ جس کو آپ کی آخرت کی فکر نہیں تو آپ کا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کے قائم کرنے ، زکوٰۃ کے ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ (صحیح بخاری:57)

قرآن وحدیث کی روشنی میں سخت رویہ،دوسروں کواذیت دینا، غرورو تکبر، طعنہ زنی،مذاق اڑانا، دھوکہ دینا اور مکرو فریب نفرتوں کے بنیادی اسباب ہیں۔ ان کی بجائے ایک دوسرے کوسلام کہنا، مسکرا کر ملنا، بڑوں سے ملاقات کرنا، بیمار کی تیمارداری کرنا،تحائف کا تبادلہ کرنا، دوسروں کی خیرخواہی اورحسن سلوک محبتوں اور الفتوں کوپروان چڑھاتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کوبالعموم اور پاکستانی معاشرہ کوبالخصوص نفرتوں سے بچنے اورمحبتوں کوپروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔