قدرت اللہ شہاب وسیع الجہت ادبی شخصیت 38ویں برسی
’’شہاب نامہ‘‘ منفرد ادبی اسلوب کی حامل آپ بیتی ہے۔اسے محض آپ بیتی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں تاریخ پاکستان بھی رقم ہے جس کی وجہ سے یہ تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے
نامور ادیب اور اپنے وقت کے سرکردہ بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب وسیع الجہت شخصیت تھے۔ وہ آئی سی ایس تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام حکومت کو نہ صرف قریب سے دیکھا تھا بلکہ اس کا حصہ بھی رہے۔
انہیں پاکستان کے سرکاری شعبے میں اعلیٰ سطح پر کام کرنے کا موقع ملا، اس لحاظ سے ملکی نظام حکومت اور دورون خانہ حقیقتوں کے چشم دید گواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کے سامنے ادیب قدرت اللہ شہاب کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب راجندر سنگھ بیدی یا سعادت حسن منٹو جتنے پائے کے افسانہ نگار نہ بھی ہوں مگر اپنے وقت کے نامور افسانہ نگاروں کے صف اول میں اپنی جگہ بنانا اور شناخت پیدا کرنا قدرت اللہ شہاب کی عمدہ افسانہ نگاری کی دلیل ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ چندراوتی‘‘ ہے جو اختر شیرانی کے مجلّے ’’رومان‘‘ میں 1938ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں نفسانے‘ (1950ء) اور ’ماں جی‘(1968ء)سے قبل ان کا مشہورِ زمانہ افسانہ ’’یاخدا‘‘ 1948ء میں شائع ہوچکا تھا ۔ شہاب لکھتے ہیں کہ یہ طویل افسانہ سب سے پہلے’نیا دور‘ کے فسادات نمبر میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد احباب کا اصرار ہوا کہ ناولٹ کے طور پر اسے کتابی صورت میں بھی ضرور چھاپنا چاہیے۔ محترمہ ممتاز شیریں مرحومہ نے ایک دیباچہ تحریر فرمادیا اور یا خدا کا پہلا ایڈیشن کراچی سے جون 1948ء میں شائع ہوا۔ عام قاری کو یہ اتنا پسند آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چھ ایڈیشن نکل گئے۔‘‘ اس ناولٹ کا کردار ’دلشاد‘ استحصال کا استعارہ ہے اور اردو ادب کا زندہ کردار بن گیا ہے۔ یہ ناولٹ تقسیم کے دوران عورت کے ساتھ ہونے والی بربریت کو گرفت میں لیتا ہے اور اس میں قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی تاریخ بھی رقم کی گئی ہے۔ یوں یہ ناولٹ تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ منفرد ادبی اسلوب کی حامل آپ بیتی ہے۔ اس کتاب کو ہم صرف ایک آپ بیتی نہیں کہہ سکتے کہ اس میں تاریخ پاکستان بھی رقم ہے جس کی وجہ سے یہ آپ بیتی معاشرتی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ اس آپ بیتی میں قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے متنوع گوشوں کی نقاب کشائی کے علاوہ فکشن نگاری کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ یہ آپ بیتی اعلیٰ فن پارہ ہونے کے ساتھ اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بھی بہت زیادہ زیر بحث رہی ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ’’ شہاب نامہ‘‘ میں مختلف موضوعات کو جگہ دی ہے، جس کی وجہ سے ’’شہاب نامہ‘‘ آپ بیتی، فکشن،تاریخ پاکستان اور مذہبی حوالے سے منفرد کتاب ہے۔’’شہاب نامہ‘‘ کی اسی انفرادیت کی وجہ سے اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس کی مقبولیت روز افزوں ہے۔
قدرت اللہ شہاب کی دیگر ادبی جہتوں میں رپورتاژ، تراجم، ڈرامے، دستاویزی فلم، تمثیل، شاعری، مکتوب نویسی، مضمون نگاری، شخصیت نگاری، خطبات، مذاکرہ، تبصرہ نگاری اور دیباچہ نگاری شامل ہیں۔ ان تمام اصناف میں انہوں نے مقدار سے قطع نظر، معیار کے حوالے سے قابل قدر اضافے کئے۔ ان میں سے بیشتر تحریریں ایسی ہیں جو مختلف رسائل و اخبارات میں شائع ہو کر قارئین کو توجہ کا مرکز بنیں اور قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے متنوع گوشے وا کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
قدرت اللہ شہاب کی تمام تصانیف کا اسلوب افسانوی ہے۔ افسانے ہوں، ناولٹ یا آپ بیتی، سبھی میں حقیقت نگاری کا عنصر غالب ہے، یہی حقیقت نگاری ان کو تحریروں کی پہچان بنی۔ اسی باعث اپنے قلیل ادبی سرمائے کے باوجود قدرت اللہ شہاب کا شمار اردو کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق قدرت اللہ شہاب 26فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ریاست جموں و کشمیر میں حاصل کی۔ جموں کے پرنس آف ویلز کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے ۔ان کا انتقال 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں ہوا اور یہیں آسودہ خاک ہیں۔
ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کاگہرا تجزیہ کیا جس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’قدرت اللہ شہاب کی شخصیت بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اسے مغلوں کی مشہور عمارت ایوان عام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس میں سادگی ہے، حُسن ہے، وسعت ہے لیکن محرابوں کے پرکار تسلسل کی وجہ سے کئی ایک سمتیں پیدا ہو گئی ہیں‘‘۔ ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کو صرف ایوان عام سے ہی تشبیہ نہیں دی بلکہ وہ ان کی شخصیت کو پیاز سے بھی تشبیہ دیتے ہیں: ’’شہاب کی شخصیت کو پیاز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس میں چھلکے ہی چھکے ہیں، پردے ہی پردے ہیں۔ پردہ در پردہ ان گنت پردے۔۔ ہر پردے کا رنگ نیا ہے۔ رنگا رنگ پردے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں پیاز کی سی بو نہیں، تلخی نہیں لیکن خبردار ان پردوں کو کھو لیے نہیں ورنہ آپ اشک بار ہو جائیں گے‘‘۔ ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے بہت محنت کی وہ قدرت اللہ شہاب کے قریب رہے، ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں پھر بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ قدرت اللہ شہاب کی شخصیت سے وہ اب بھی نا آشنا ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کسی پر کھل کر نہیں آنے والے ہیں۔ممتاز مفتی، اس حوالے سے اپنی کتاب ’’پیاز کے چھلکے‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اس کا دل اور روح دو بڑے آئینے ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل رکھے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان قدرت کی شخصیت کا مٹی کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ آئینوں میں دیے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ قطار اندر قطار، نہ ختم ہونے والی قطار، گہرائی ہی گہرائی، اتھاہ گہرائی۔ میں نے قدرت اللہ شہاب کی گہرائی میں جھانکا ضروری ہے لیکن اسے پا نہیں سکا۔ البتہ اس کے اسرار سے محظوظ ہواہوں اور متاثر بھی‘‘۔
قدرت اللہ شہاب کو جب انجائنا کا مرض لاحق ہوا تو ڈاکٹروں نے سیر تجویز کر رکھی تھی، اس لئے وہ باقاعدگی سے سیر کرنے کی کوشش کرتے لیکن اگر کسی دن بارش ہو جاتی اور ان کی سیر سے چھٹی ہو جاتی تو بہت خوش ہوتے۔ آخری عمر میں صبح سویرے سیر کو جانا انہیں مشکل لگنے لگا تو ڈاکٹروں نے دھوپ نکل آنے پر سیر کرنے کی ہدایت کی۔ ایک دن ساڑھے گیارہ بجے سیر سے واپس آئے تو ان کی عجیب حالت تھی جوان کی موت کا پیش خیمہ تھی۔ اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب کی اس حالت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’ایک روز جب وہ ساڑھے گیارہ بجے گھر واپس پہنچے تو چہرہ سرخ تھا اور اور قدموں کو ڈگمگانے سے روک کر چل رہے ہوں۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ کے بجائے انبساط کی ابھرتی ہوئی سی ہنسی تھی۔ ایک مٹھی بند تھی اور دوسرا ہاتھ دل پر رکھا ہوا تھا۔ ان کی بہن محمودہ انہیں اس غیر معمولی کیفیت میں دیکھ کر گھبرا سی گئیں اور بولیں ’’ بھائی جان دودھ لائوں‘‘؟ شہاب صاحب نے وجد میں آکر اور سر ہلا کر کہا ’’ ضرور ضرور‘‘ اور محمودہ ان کیلئے دودھ گرم کرنے چلی گئیں۔ کہنے لگے’’ آج ایک انعام ملا ہے‘‘۔میں نے کہا ’’ انعام تو آپ کو زندگی بھر ملتے رہے ہیں۔ یہ کون سی نئی بات ہے‘‘۔کہنے لگے’’ یہ انعام سب سے بڑا، سب سے قیمتی اور سب سے آخری ہے۔ اس کیلئے بڑے سال انتظار کیا۔ بڑی دیواروں پر نشان لگائے۔ بڑی منتیں مانیں لیکن آج بغیر کوشش کے مل گیا‘‘۔میں نے کہا ’’ ایسی کون سی دولت ہاتھ آ گئی ہے جو خوشی کا یہ دھارا سارے وجود سے بہتا چلا جا رہا ہے‘‘؟کہنے لگے کہ آج جو میں سیر کرنے نکلا تو راستے میں تین مرتبہ ٹھٹھکا۔ پائوں کچھ ٹھیک نہیں پڑتے تھے۔ آنکھیں بند کرکے واپس لوٹنے کی ہمت مجتمع کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے قریب سے ایک چھوٹی منی سی آواز آئی ’’ہاہا! ہاہا! میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بچہ نیلی نیکر اور سفید قمیص پہنے میرے قریب کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ جب میں نے آنکھیں کھول کر اور مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا ’’ ہاہا آٹا لو گے کہ پیسہ؟ میں نے اس کے سر پر پیار دے کر کہا ’’دونوں ہاہا دونوں! دونوں لوں گا؟‘‘ میری یہ بات سُن کر وہ اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا۔ پھر وہ اپنے گھر سے نمودار ہوا اور تیز تیز قدم اٹھاتے میرے پاس پہنچ کر بولا ’’ ہاہا! امی کہتی ہیں آٹا دانا ہمارے پاس کوئی نہیں۔ یہ اٹھنی لے لواور جائو یہاں سے۔ معاف کرو‘‘۔ پھر شہاب صاحب نے اپنی بند مٹھی کھولی اور چمکتی ہوئی اٹھنی مجھے دکھا کر کہا ’’ میرے پاس ایک جھولی تھی لیکن کئی سال سے خالی تھی۔ آج اس میں خیر پڑ گئی اور میں سرا سر لبریز ہو گیا۔ اللہ کی مہربانی کے بھی کیا روپ ہوتے ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو دانا بنا کر بھیج دیتا ہے اور سوالی کا سوال پورا کر دیتا ہے‘‘۔
اس واقعے کے اگلے روز قدرت اللہ شہاب کی روح پرواز کر گئی۔یہ سال 1986 اور جولائی کا 24واں روز تھا، اس مناسبت سے دو روز بعد ان کی 38 ویں برسی ہو گی۔حکومت پاکستان کی طرف سے قدرت اللہ شہاب کو ستارہ قائداعظم ایوارڈ اور ستارہ پاکستان ایوارڈ سمیت متعدد اعزاز عطا کئے گئے تھے۔
قدرت اللہ شہاب کی تصانیف
قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کے موضوعات میں ر نگارنگی اور تنوع پایا جاتا ہے۔ ان افسانوں میں حقیقت نگاری کا عنصر غالب ہے۔ طنز کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔قدرت اللہ شہاب نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جتنا لکھا، عمدہ لکھا۔ ان کی مطبوعہ تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
1-یا خدا : 1948۔
2-نفسانے: 1950۔
3-ماں جی‘1968۔
4-شہاب نامہ،1987۔