حدوداللہ کی فراموشی،ناراضی کا سبب
حدود فراموشی اللہ کی ناراضگی کا سبب!جو شخص اللہ کی مقرر کردہ حدود میں حائل ہو،تو اس نے اللہ سے ضد کی‘‘ ( ابو داؤد)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کی مقرر کردہ حدود میں حائل ہو (یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدود میں کسی بھی طریقے سے رکاوٹ بنے) تو اس نے اللہ سے ضد کی‘‘ (ابو داؤد)۔ لفظ حدود، حد کی جمع ہے اور فراموشی کا معنی ہے بھول جانا۔ لہٰذا حدود فراموشی کا معنی ہوا حدوں کو بھول جانا ۔
قرآن و حدیث میں حد کالفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک لغوی معنی ہے اور دوسرا اصطلاحی معنی ہے۔حد کا لغوی معنی ہے ’’الحاجز بین شیئین‘‘ یعنی دو چیزوں کے درمیان جو رکاوٹ ہوتی ہے اسے حد کہتے ہیں ۔
اسلامی اصطلاح میں حد کہتے ہیں عقوبۃ مقدرۃ تجب حقاللہ۔یعنی حد اس سزا کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر واجب ہوتی ہے جیسے حد سرقہ یعنی چوری کی سزا، حد قذف یعنی تہمت لگانے کی سزا۔
گویا کہ حدود اللہ کی طرف سے مقرر کر دہ وہ ضابطے ہیں جو سزا کی صورت میں یا حلال و حرام کے احکامات کی صورت میں ہیں۔ ان حدود کو مقرر کرنا اس لیے ضروری ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں سے کسی بھی راستہ پر چلنے کا اختیار دیا ہے اب انسان اسی فطرت کی وجہ سے اپنی خواہش، اپنی چاہت، اپنی مرضی کو پورا کرنا چاہتا ہے اس لیے انسان کو حدود و قیود پسند نہیں، وہ ہر قسم کی بندشوں سے آزادی چاہتا ہے۔ اگر انسان کو اسی طرز پر چلنے کی اجازت دے دی جائے تو ظاہر ہے کہ انسان من مانی کرے گا اور اس طرح زندگی کا پورا نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے کہ انسان خود اپنے بارے میں یہ چاہے گا کہ مجھے یہ چیز مل جائے، میری یہ بات پوری ہو جائے۔ حالانکہ انسان کو معلوم نہیں کہ آخر کار اس کیلئے یہ اچھا ہے یا برا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘
انسان نے جو اپنے اچھے اور برے کو سوچ کر خود بھی ضابطے بنائے، قوانین بنائے اور اپنے لیے اور دوسروں کیلئے کچھ حدیں مقرر کی ہیں۔ اب انسان کی مقرر کردہ حدود اور اللہ کی مقرر کردہ حدود میں فرق یہ آجاتا ہے کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ وہ جب بھی قوانین بنائے گا تو اگر اپنے ملک کیلئے بنائے گا تو اپنے ملکی مفادات کو سوچے گا۔ علاقے کیلئے ضابطے اور حدود مقرر کرے گا تو علاقائی مفادات کو سامنے رکھے گا۔ لیکن خالق کائنات نے جب حدود مقرر فرمائیں تو پوری کائنات کے حالات اس کے سامنے تھے۔ وہ علیم ہے خبیر ہے اس کی مقرر کردہ حدود میں پوری انسانیت کی فلاح اور کامیابی ہے۔لہٰذا اللہ رب العزت نے زندگی کے ہرمرحلے کیلئے احکام و آداب سکھائے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے ہر مرحلے کیلئے حدود مقرر فرمائیں یہاں تک کہ انسان اکثر خوشی اور غم کے موقع پر اللہ کی مقرر کردہ حدود کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ خوشی کے مرحلے میں سب کچھ کر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے خوشی کا موقع ہے ۔ غم کا وقت آجائے تو نہ معلوم کیا کچھ کرتا ہے اور کہتا ہے بس جی غم کا موقع ہے کیا کریں۔حالانکہ اللہ نے غم اور خوشی کے موقع پر حدود مقرر فرمائی ہیں۔ حتیٰ کہ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی حدود بھی بتائی ہیں تاکہ انسان وہاں بھی حد سے آگے نہ بڑھے۔ رسول اکرم ﷺ نے ان حدود سے آگے بڑھنے اور ان حدود کو فراموش کرنے سے منع کرنے کے ساتھ اس سے بچنے کے طریقے بھی بتائے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ باتیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی‘‘۔
انسان حدود فراموشی یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو بھلا دینے کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب قرآن حکیم میں انسان کیلئے ضابطے اور حدود بیان فرمائے ہیں تو وہاں انسانوں کو حدود کی پابندی کے لیے تین طرح کے جملے فرمائے۔
ایک تو قیامت کے دن کے حساب اور جرائم کی سزا سے ڈرا کر انسان کو ان حدود کی پابندی کیلئے آمادہ کیا۔ اس کے ساتھ اس کی خلاف ورزی میں انسان کیلئے جو نقصانات ہیں ان کو واضح کیا۔ پھر بتایا کہ تمہاری بھلائی صرف اسی میں ہے کہ تم ان حدود کی پابندی کرو۔
لہٰذا انسان اگر پابندی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہے اور اس کے احکامات کو ذہن میں رکھے اور پھر زندگی کے ہر مرحلے میں یہ آگاہی حاصل کرتا رہے کہ رسول اکرم ﷺنے اس بارے میں کیا ہدایات ارشاد فرمائی ہیں تو پھر انسان زندگی کے کسی مرحلے میں حدود فراموشی کا مرتکب نہ ہو سکے گا اور یوں اسے دنیا و آخرت دونوں میں فلاح و کامیابی نصیب ہو گی۔