حکمت سے نصیحت

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


اہل معاشرہ کیلئے خیر خواہی کا طریقہ سورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو خسارے اور گھاٹے سے نکلنے کے جو طریقے بتائے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح کے بعد ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کی نصیحت کرنا ہے

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’جو شخص خلاف شرع بات دیکھے اسے زور بازو سے تبدیل کرے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے کرے، اور اگر ایسا نہ کر سکے تو دل سے اسے برا جانے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے‘‘(مسلم شریف)۔اللہ رب العزت نے سورۃ العصر میں فرمایا: ’’زمانے کی قسم! انسان بڑے خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق بات کی وصیت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے‘‘۔

عربی زبان میں لفظ وصیت دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک معنی تو یہ لیا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں ہدایت دینا کہ میرے مرنے کے بعد ایسا کرنا یا ایسا نہ کرنا عموماً اس کو وصیت کہتے ہیں۔ اور دوسرا مفہوم وصیت کا یہ ہے کہ کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤثر انداز میں نصیحت کرنا اور نیک کام کی ہدایت کرنا۔

قرآن مجید میں لفظ وصیت ان دونوں معنوں میں آیا ہے۔ لیکن ہم اس وقت وصیت بمعنی نصیحت کے لے رہے ہیں۔ اس لیے سورۃ العصر میں اللہ رب العزت نے انسان کو خسارے اور گھاٹے میں سے نکلنے کے جو طریقے بتائے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح کے بعد ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کی وصیت یعنی نصیحت کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان اگر خود تو قرآن و سنت پر عمل کر رہا ہو، خود اعمال صالحہ کا پابند ہو تو اس کیلئے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی ایمان اور اعمال صالحہ کی طرف آنے کی نصیحت کرتا رہے۔ خصوصاً اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کے برے اعمال کی طرف توجہ نہ دیتے ہوئے نصیحت کرنے سے غافل ہونا خسارے کا راستہ ہے۔ بسا اوقات انسان یہ سمجھتا ہے کہ بس ٹھیک ہے میں خود اپنے اعمال کا جواب دہ ہوں۔ میں خود نیک کام کر رہا ہوں دوسرا کیا کر رہا ہے مجھے غرض نہیں یا یہ جملے منہ سے نکل جاتے ہیں کہ میں نے اپنی قبر میں جانا ہے، اس نے اپنی قبر میں جانا ہے لہٰذا یہ جملے کہہ کر انسان وصیت یعنی نصیحت سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ 

اس بات کا جواب اور نصیحت کا فلسفہ رسول اکرمﷺ نے ایک خوبصورت مثال کے ذریعہ سمجھایا، فرمایا کہ ایک کشتی میں کچھ لوگ سوار ہیں، منزل کی طرف رواں دواں ہیں کچھ لوگ کشتی کی اوپر والی منزل میں ہیں اور کچھ لو گ نچلی منزل میں ہیں۔ جب نچلی منزل والے اوپر پانی لینے کیلئے جاتے تو اوپر والوں کو تکلیف ہوتی۔ چنانچہ ایک شخص نے کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے کہا یہ کیا کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا تمہیں کیا، میں اپنی سیٹ کے نیچے سوراخ کر کے پانی حاصل کر رہا ہوں تمہیں تو کوئی تکلیف نہیں دے رہا ہوں۔ پھر رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ اگر وہ لوگ اس شخص کو کشتی میں سوراخ کرنے سے روک لیں تو وہ اس شخص کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے اور اگر وہ اس کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیں گے کہ ٹھیک ہے وہ اپنی نشست کی جگہ سوراخ کر رہا ہے ہمیں کیا تو پھر وہ شخص بھی ڈوبے گا اور باقی کشتی والے بھی ڈوب جائیں گے‘‘۔

بالکل اسی طرح ہم بھی معاشرے کی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں لہٰذا اگر ہم اپنی جگہ نیک ہوں، با عمل ہوں لیکن دوسرا شخص برائی میں مبتلا ہو تو اب اس انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ وصیت یعنی نصیحت کر کے اسے برائی سے روکے۔ ورنہ اس کے برے اعمال اس نیک تک بھی پہنچیں گے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کر دے گا پھر تم اللہ سے دعا کرو گے اور تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی‘‘۔

باقی رہی یہ بات کہ اب نصیحت کا دور کہاں، تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے وصیت یعنی نصیحت کے آداب اور سلیقے سکھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بڑی سمجھدار اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو‘‘۔ لہٰذا جب بھی نصیحت کرتے ہوئے سمجھداری کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو پھر نصیحت کے انتہائی برے اثرات سامنے آتے ہیں جیسے نصیحت کرتے ہوئے اپنے آپ کو نیک پارسا ظاہر کرنا، دوسرے کو گنہگار ہونے کا احساس دلانا، نصیحت کرتے ہوئے تمسخر کا انداز اور دوسرے کی تحقیر کا لہجہ اپنانا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ دوسرے شخص کے جذبات و احساسات کا خوب خیال فرماتے تھے۔ آپﷺ کے قریبی صحابہ کرام ؓسے کوئی نامناسب بات سامنے آتی تو ناراضگی کا اظہار فرماتے تھے۔ ایک صحابیؓ نے پکا مکان بنا لیا تو ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ دوسری طرف دیہاتی نے آکر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو فرمایا اسے ذرا فارغ ہونے دو، ابھی نہ روکو۔ پھر بعد میں اسے بلایا، فرمایا کہ یہ مسجدیں اللہ کی عبادت کیلئے ہوتی ہیں، ان کو پاک رکھنا چاہیے پھر دوسرے صحابیؓ سے فرمایا کہ جائو اس جگہ کو پاک کر دو۔ 

جب کہنے والے کے دل میں دوسرے کے بارے میں ہمدردی اور درد ہو تو اسے نصیحت کرتے ہوئے اس کے اپنے لہجے میں اعلیٰ درجہ کی رقت اور اثر انگیزی آجاتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ دن کو لوگوں کو نصیحت فرماتے تو راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑاکر امت کیلئے دعائیں اور گناہوں کی مغفرت مانگتے۔

رسول اکرم ﷺ نے زندگی کے بہت سے مراحل میں کئی نصائح ارشاد فرمائی ہیں۔ پیدائش سے لے کر مرنے تک کے مرحلے کیلئے وصیتیں فرمائیں اور پھر موت کے بعد دائمی زندگی کیلئے بھی خوب نصیحتیں فرمائیں۔ کبھی کبھی تو آپ ﷺ نصیحت فرماتے ہوئے یہ بھی فرماتے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں جیسے ایک مرتبہ فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں‘‘۔

پھر صحابہ کرامؓ بھی بسا اوقات آپ ﷺ سے رہنمائی طلب کرنے کی خاطر وصیت یعنی نصیحت کا لفظ استعمال کرتے، جیسے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا مجھے نصیحت کیجیے تو آپﷺ نے فرمایا تو غصہ مت کر۔ یہ سن کر اس شخص نے بار بار یہ جملہ دہرایا تو آپﷺ نے ہر بار فرمایا تو غصہ مت کر۔ معلوم ہوا کہ کسی بات کی اہمیت کے پیش نظر بار بار ایک ہی نصیحت کو دہرانا چاہیے۔ سلیقے سے بات کو دہرانا یقیناً عمل کیلئے مفید ثابت ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو آپس میں سمجھداری اور سلیقے سے حق بات کی وصیت و نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭