ڈیجیٹل دور میں بچوں کی تربیت ماں کے چیلنجز

تحریر : فاطمہ امجد


ماں ایک ایسی شخصیت ہے جو نسلوں کی بنیاد رکھتی ہے۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں وہ زندگی کے ابتدائی اسباق سیکھتا ہے؛چنانچہ بچے کی شخصیت سازی میں ماں کا کردار نہایت اہم ہے۔بچے کی زبان، عادات، مزاج، رویہ اور اخلاقیات کی بنیادیں گھر پر اور خاص طور پر ماں کی موجودگی میں رکھی جاتی ہیں۔

 ایک ماں اپنے بچے کے جذبات، ضروریات اور شخصیت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتی ہے ، یہی قربت تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ماں کی گود میں ہی بچہ سچ بولنا، دوسروں کا احترام کرنا، محنت، دیانتداری اور احساس جیسی صفات سیکھتا ہے۔ اگر ماں خود ان خوبیوں پر عمل کرتی ہو تو بچہ لاشعوری طور پر انہی رویوں کو اپناتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ماں کے قدموں تلے جنت اسی لیے ہے کہ وہ انسان سازی کا عظیم فریضہ انجام دیتی ہے۔

 ماضی کے مقابلے میں اس دور کی ماؤں کو بچوں کی تربیت میں کئی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جدید دور میں جہاں سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی، اور معلومات کا سیلاب آیا ہے وہیں خاندانی نظام کی کمزوری، ابلاغی ذرائع کا منفی اثراور معاشی دباؤ نے ماں کے کردار کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔سمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور انٹرنیٹ کی آسان دستیابی نے بچوں کو ورچوئل دنیا میں الجھا دیا ہے۔ یوٹیوب، گیمز اور سوشل میڈیا پر غیر مناسب مواد تک رسائی بچوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اس صورتحال میں ماؤں کو نہ صرف بچوں کے سکرین ٹائم پر نظر رکھنی چاہیے بلکہ انہیں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا بھی ضروری ہے۔

آج کے دور میں بہت سی مائیں ملازمت کرتی ہیں جس سے ان کی ذمہ داریاں دوگنی ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف وہ معاشی بوجھ بانٹ رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف بچوں کی تربیت کا فریضہ بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔تاہم وقت کی کمی اور ذہنی تھکن کے باعث بعض اوقات تربیت کا عمل متاثر ہوتا ہے، ایسے میں وقت کی بہترمینجمنٹ بچوں کو ترجیح دینا بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ آج کل کے بچے مغربی طرز زندگی سے بھی متاثر دکھائی دیتے ہیں،؛ چنانچہ ماں کے لیے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کو اپنی روایات اور دینی اقدار سے جوڑے رکھیں۔ صرف نصیحت کافی نہیں بلکہ عملی نمونہ بن کر بچوں کے لیے مثال قائم کرناضروری ہے کہ ہماری ثقافت میں کیا خوبیاں ہیں۔

بچوں کی بہتر تربیت کے لیے ماؤں کو کچھ بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ جدید دور کے چیلنجز یقینا بہت ہیں مگر حکمت، قربانی اورمحبت سے ماں ان پر قابو پا سکتی ہے۔ اگر ماں خود باشعور ہو، تربیت کے اصولوں سے آگاہ ہو اور وقت کے تقاضوں کو سمجھے تو وہ ہر دور میں بچوں کی بہترین رہنما بن سکتی ہے۔ ماں کا کردار آج بھی سب سے مضبوط ستون ہے، جو معاشرے کو مہذب، بااخلاق اور ذمہ دار انسان دے سکتا ہے۔

قربت کا ماحول پیدا کریں

روزانہ بچوں سے بات کریں، ان کی بات سنیں، مسائل کو سمجھیں اور ان کی رائے کو اہمیت دیں۔ اس سے بچے ماں سے قریب رہتے ہیں اور کسی اور طرف راغب نہیں ہوتے۔

مثالی کردار اپنائیں

 بچے باتوں سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ ماں اگر خود سچ بولے، نماز کی پابندی کرے، دوسروں سے حسن سلوک کرے  تو بچہ بھی وہی رویہ اپنائے گا۔

علمی اور اخلاقی تربیت 

 صرف کتابی تعلیم کافی نہیں اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دین اور دنیا دونوں کی تعلیم دے تاکہ  وہ متوازن شخصیت بنیں۔

ٹیکنالوجی کا درست استعمال

جدید دور میں ٹیکنالوجی سے مکمل دوری ممکن نہیں اس لیے بچوں کو اس کا مثبت استعمال سکھانا ضروری ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ بچوں کی غلطیوں پر فوری غصے کی بجائے نرمی سے سمجھانا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔